اسلامی نظام میں عہدہ اور منصب ایک امانت ہے

اسلامی نظام میں عہدہ اور منصب ایک امانت ہے

منصب اور ذمہ داری، حکمرانوں کے ہاتھوں ایک طرح کی امانت ہے اور ناجائز مقاصد کے حصول میں وہ اس امانت کو استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

منصب اور ذمہ داری، حکمرانوں کے ہاتھوں ایک طرح کی امانت ہے اور ناجائز مقاصد کے حصول میں وہ اس امانت کو  استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

امام خمینی کے پوتے حجت الاسلام والمسلمین سید علی خمینی کا کہنا تھا: امام کے گھرانے اور رہبر انقلاب کے درمیان تفرقہ اندازی سے امرریکہ، اسرائیل اور منافقین کو ہی فائدہ ہوگا، اسی لئے امام کے فرزندوں کے بیانات میں رہبر انقلاب اسلامی آیت الله خامنه ای کی تضعیف پرمبنی کسی طرح کا کوئی مواد نہیں پایا جاتا۔

جماران کے مطابق، یادگار امام سید علی خمینی نے قائم شهر نماز جمعہ کے مرکزی اجتماع سے خطاب کے دوران امام صادق علیہ السلام کی حدیث: " اپنے رب کا تقوی اختیار کرو، جو کوئی تمہیں امین بناتے ہوئے امانت سونپے تو اس کے ساتھ خیانت مت کرو " سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: تقوی کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہے تاہم فرائض کی انجام دہی اور محرمات سے اجتناب، تقوی کی بنیادی اساس ہے، یعنی خدا کے بتائے ہوئے دستورات پر عمل کرنے کا نام تقوی ہے۔

انہوں نے تقوی کی ادائیگی کے مختلف شعبوں پر بات کرتے ہوئے کہا: اسلامی نظام میں منصب اور ذمہ داری ایک امانت ہے، جیسا کہ رہبر انقلاب نے اس ضمن میں فرمایا ہے" منصب اور ذمہ داری، حکمرانوں کے ہاتھوں ایک طرح کی امانت ہے اور ناجائز مقاصد کے حصول میں وہ اس امانت کو  استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے " عہدہ اور منصب اسلامی نظام سمیت دنیا کے تمام نظاموں میں امانت کی حیثیت رکھتا ہے، لہذا لوگوں کے مال اور عزت کی حفاظت، حکمرانوں کا منصبی فریضہ ہے۔

انہوں نے کہا: دشمن کو غلط پروپیگنڈوں اور تبلیغات میں کافی مہارت حاصل ہے یہاں تک کہ اس نے غلط تبلیغات کے نتیجے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ نعوذ باللہ امام علی علیہ السلام نماز نہیں پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ انہی تبلیغات کے دھوکے میں آگئے تھے، یہی وجہ ہےکہ آغاز انقلاب سے ہی دشمن اسی انتظار میں ہےکہ ہمارے آپس میں اختلاف ہو تاکہ وہ انہی اختلافات کو ہوا دینے کے ساتھ  آلودہ فضا سے فائدہ اٹھا سکے۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ملک میں امن اور امان کی موجودہ صورتحال، حکومت اور سپاہ میں موجود انٹیلی جنس  اداروں کی مرہون منت ہے، کہا: بعض مواقع پر مصلحت عامہ کے تحت صورتحال کو قابو میں رکھنے کےلئے قومی انٹیلی جنس اداروں کو دخالت کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم امام کی جانب سے 28 دسمبر (8 دی) کو جاری ہونے والے آرٹیکل میں آیا ہے:

" اگر آپ کے پاس سکیورٹی خدشات کی بناپر کسی گھر میں گھسنے کا جواز موجود ہو لیکن کسی چار دیواری میں داخل ہونے کے بعد معلوم ہوجائے کہ وہاں کوئی دہشت گرد ٹیم نہیں بلکہ ایک شخص ہے جس کے پاس شراب اور افیوں ہے، تو اس آگاہی کے بعد ہمیں اس سے نمٹنے کا حق حاصل نہیں! اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا"۔

ہماری میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے ہوشیاری سے کام لیں اور سیاست کی وجہ سے لوگوں کی عزت اور وقار سے نہ کھیلیں، ہمیں خدا سے ڈرتے ہوئے اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہےکہ اس دنیا کے بعد ایک اور جہاں بھی ہے، ہم مسلمان ہیں، ہمارے نامہ نگار بھی مسلمان ہیں، انہیں دنیا کی طرف دیکھنے سے پہلے قرآن اور احادیث کی طرف دیکھتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے، اسلام ہمیں ہر سنی سنائی ہوئی بات کو شایع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

سید علی خمینی نے انسان کے نفس کو امانت الہی کا ایک اور مصداق قرار دیتے ہوئے زور دیا: ہمیں اپنے اور اپنے ملک کے وقار کو توڑنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ یہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جو ہمارے سپرد کی گئی ہیں، ہمارے علاوہ کسی دوسرے شخص کو بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری عزت نفس اور وقار کے ساتھ کھیلے، رہبر انقلاب کی جانب سے انقلابی حوصلوں کی بلندی اور اسلامی وقار پر تاکید اسی نکتے کی جانب اشارہ  ہے۔

انہوں نے مزید کہا: خدا نے جس نعمت سے بندے کو نوازا ہے اس کی قدردانی لازمی ہے، خدا نے مجھے امام خمینی کے پوتے ہونے کے افتخار سے نوازا ہے، امام سے انتساب کی بناپر لوگ مجھے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، میں ایک معمولی سا طالب علم ہوں اور حوزہ علمیہ میں میری ظاہری پیشرفت امام خمینی کی مرہون منت ہے جس کی وجہ سے میرے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ میں اپنی من پسندی سے بات نہ کروں اور کسی طرح میرے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آنے پائے، اگر خدا نخواستہ کہیں ایسا ہوا تو آخرت میں امام مجھ سے ضرور سوال کرینگے۔
 انہوں نے واضح کیا: ہم بیرون ملک مقیم افراد کی ان سازشوں سے باخبر ہیں کہ جنہوں نے کچھ داخلی عناصر سے ملکر جناب آقا حسن خمینی اور رہبر انقلاب کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاہم امام کا گھرانہ رہبر انقلاب کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے، رہبر انقلاب کی جانب سے ہمارے ساتھ محبت پرمبنی رفتار کی مثال بے نظیر ہے، خبرگان رہبری سے متعلق انتخابات کےلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے ایک ہفتہ قبل نیز کاغذات نامزدگی کے مسترد کئے جانے کے دو ہفتے بعد، سید حسن اور رہبر انقلاب کے درمیان ملاقات، اس کی واضح مثال ہے، ان کے مابین گہرے تعلقات سے دشمن کو بہت تکلیف ہوتی ہے اسی لئے ہمارے دشمن کی ہمہ گیر کوشش ہےکہ کسی نہ کسی طرح امام کے گھرانے اور نظام اسلامی کے درمیان تفرقہ بازی کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے۔

سید علی خمینی نے کہا: کیا آپ نے سید حسن کا حالیہ انٹرویو نہیں دیکھا جس میں انہوں نے کہا: رہبر انقلاب اسلامی، امام خمینی کی قیادت کے لائق جانشین ہیں اور خدا کا ہم  پر کرم تھا کہ وہ امام خمینی کے جانشین قرار پائے۔ اس میں شک نہیں کہ امام کے گھرانے اور رہبر انقلاب میں تفرقہ اندازی کا فائدہ امریکہ، اسرائیل اور منافقین کے سوا کسی اور کو نہیں، ہم ہمیشہ رہبر انقلاب کے ساتھ ہیں اسی لئے امام کے فرزندوں کے بیانات میں رہبر کی تضعیف پرمبنی کسی طرح کا کوئی مواد دیکھنے کو نہیں ملےگا۔


حوالہ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں