یہ صدی، امام کی صدی ہے اور یقیناً ایران اور مسلم دنیا میں کوئی بھی، امام خمینی کی طرح اہم اور کارساز اثر نہیں چھوڑا ہے۔ یہ ایک صدی میں ۔ گزشتہ چند سال کے علاوہ ۔ جس میں امام دنیوی عالم میں حیات طیبہ رکھتے تھے، آپ کے افکار اور عالی نظریات، ہمہ وقت کارساز اور نمایاں اثر و کردار کا مالک تھا جو حیات و ممات، دونوں حالت میں حریت پسندوں کےلئے راہنما اور کارگشا نظر آتا ہے۔
امام خمینی علیہ الرحمہ، سنجیدگی اور خاص حساسیت کے ساتھ مسائل کو تعاقب کرتے تھے۔
سب سے پہلے، آپ[رح] کی ذاتی شخصیت، نیز ذاتی صلاحیت اور عالی کردار کے جوہرہ سب کےلئے بہت ہی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ امام واقعی معنوں میں ذہین اور باصلاحیت تھے۔ حقیقتاً عصر حاضر کا واقعی نایاب انسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کی طرح مسائل کا فوری تجزیہ و تحلیل کیا کرتے تھے اور دماغی وسعت کے ساتھ مطمئن نتیجہ اخذ فرماتے تھے۔
امام نے "کشف اسرار" نامی کتاب میں بہت سارے مسائل کے بارے گفتگو کی اور رضا خانی ڈکٹیٹرشپ، نیز نام نہاد مغربزدہ نواندیش اور اسلام معاند بائیں بازو کمیونسٹوں کے متعلق وضاحت پیش کی ہے جو آپ رحمت اللہ علیہ کی گزشتہ دوران کے مسائل سے واقفیت اور حساسیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس مشکلات کے مقابلے کےلئے امام نے بہترین راہ کا انتخاب کیا کہ اب خالی ہاتھ سے تو کچھ نہیں کرسکتا لہذا ایک عظیم بنیاد ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ پہلا قدم آپ نے حوزہ ہائے علمیہ میں مضبوط اور قابل اعتماد سپاہیوں کی تربیت کےلئے سامان مہیا کیا۔
معصومہ قم میں حوزہ علمیہ، ایک مستحکم اور بنیادی علمی مرکز کے طورپر قائم رہنا نیز آیت اللہ العظمی بروجردی کی حوزہ میں موجودگی، صحیح منتخب راستہ تھا۔ گویا اس کو عملی نتیجہ تک پہنچنے کے حوالے سے امام بھرپور اور اہم کردار رہا ہے۔
امام اس مرحلے پر، اخلاق، فقہ و اصول اور فلسفہ کے دروس کی کلاسیں دائر کرکے باصلاحیت اور ذہین شاگردوں کی تربیت کرنے میں کوشاں رہے اور ایک ہی وقت میں جنرل تحریک کے طورپر کام کرنا بھی آغاز کیا۔
آیت اللہ بروجردی کے ارتحال اور تدفین کی تقریبات پر، اسلام کی عظمت، مقبولیت اور جامعیت، ناظرین کے سامنے عیان ہوئی؛ اس موقع پر امام نے یہ سوچا کہ اسلامی انقلابی اقدار اور اہداف عالیہ کو متعارف کرانے اور بروئے کار لانے کےلئے، حوزہ کو حرکت دینے چاہئے۔
اب پندرہ سال پہلے کی طرح نہیں، اب ملک بھر میں ہزاروں جان بکف اور ہوشیار طلبا اور عالم دین سپاہی، مکتب خمینی میں تربیت یافتہ ہیں۔
اب امام کےلئے حجت شرعی قائم ہوئی ہے۔ امام کے دوران مزاحمت سے وفات تک کے بیانات اور مواقف، سب کے سب آپ کے دوران حیات طیبہ میں دریافت، تجربہ اور تجزیہ وتحلیل کا نتیجہ ہے۔
وہ دقت اور حساسیت جو آپ کے وجود مبارک میں دوران جد وجہد، منقوش ہوئی، دوران نہضت سے فتح وکامیابی تک رہا اور وقت ضرورت بخوبی نمایاں بھی ہوا۔
ہمیں معلوم تھا کہ آپ فوری اور ناپختہ فیصلہ سے کام نہیں لیتے بلکہ سالہا تجربہ اس فیصلہ کے ہمراہ ہے۔ اس لئے امام نے ابتدائی دنوں میں ۲۵۰۰ سالہ شاہی حکومت کو ۲۲ بہمن ۱۳۵۷ ہجری شمسی کے مبارک ایام میں شکست دینے میں کامیاب رہے۔
ماخذ: امام خمینی به روایت آیت الله هاشمی رفسنجانی، ص 231-260 سے اقتباس