جماران کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد علی انصاری نے مرکزی تعظیم امام خمینی کمیٹی کے منتظمین کی، یادگار امام کے ساتھ ملاقات کے دوران گفتگو میں امام خمینی کی وصیتوں میں انقلاب اسلامی کے الہی اور عوامی زاوئے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب اسلامی کے عوامی انقلاب ہونے سے متعلق بہت سی باتیں موجود ہیں تاہم انقلاب کے الہی اور روحانی رخ سے ہم ناواقف ہیں۔
انہوں نے یہ سوال کرتے ہوئےکہ انقلاب کے ماتھے پر وہ کونسی نشانیاں تھی جس کی روشنی میں امام امت نے اسے الہی نظام کا نام دیا تھا؟ کہا: قرآنی آیات کے تناظر میں نور کی جانب، ہدایت ممکن نہیں مگر یہ کہ خدا ہدایت کا راستہ دکھائے اور یہ قاعدہ انبیاء الهی اور پیغمبر اسلام کے حق میں بھی صادق آتا ہے۔ ہدایت الہی کی نشانیوں میں سے ایک، ایرانی معاشرے کی مانند معاشرے کی تشکیل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی اور الہی ہدایت کی ہوا نسیم بہار بن کر یہاں کی عوام پر چلنے لگی۔ کسی انسان کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اس بات کا حق نہیں کہ وہ اپنی عزت کو خدا کے سوا کسی اور سے منسوب کرے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا کیا تو یہ ارتکاب شرک کا مترادف ہوگا۔
انصاری نے جذبہ اصلاح پسندی کو ایک الہی معاشرے کی دوسری نشانی کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا: ائمہ علیہم السلام اور امام خمینی کی تحریکیں، اصلاحی امور پر مشتمل تھیں۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کےلئے قیام کیا ہے۔ تاہم اگر کسی قوم کا نعرہ جنگ اور جنونیت پر مشتمل ہو تو یہ حقیقت میں داعشیوں کا نعرہ ہے۔
انہوں نے اسلامی معاشرے کی ایک اور نشانی کو اہل بیت(ع) سے محبت قرار دیتے ہوئے کہا: میرا یہ عقیدہ ہےکہ ہمارے انقلاب کا قوام،امام کے گھرانے، امام کی یادگاروں اور امام خمینی کے نقش قدم پر چلنے والوں کے ساتھ احترام پر موقوف ہے۔
انصاری نے مزید کہا: اگر کوئی امام کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کی توہین پر خوش ہو اور سماج بھی سکوت اختیار کرتے ہوئے کوئی رد عمل نہ دکھائے تو یہ خدا اور انبیاء کے راستے سے دوری کا باعث ہے، کیونکہ یہ خدا اور اس کے انبیاء کی روش نہیں ہوسکتی۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ