امام انتہا پسندوں سے ناراض تھے

امام انتہا پسندوں سے ناراض تھے

اگر ہم انقلاب میں موثر کردار افراد کو ہٹا دیں، انقلاب کی تاریخ کا اثرگذاری ختم اور اصل انقلاب پر تہمت لگانے کی فضا آمادہ ہوجائے گی۔

اگر ہم انقلاب میں موثر کردار افراد کو ہٹا دیں، انقلاب کی تاریخ کا اثرگذاری ختم اور اصل انقلاب پر تہمت لگانے کی فضا آمادہ ہوجائے گی۔

جماران ویب سائٹ کے مطابق، جنوبی تہران کی عوام حجۃ الاسلام سید مہدی طباطبایی کو ایک سیاستمدار سے زیادہ دسیوں بار ٹی وی کی اسکرین پر ایک "معلم اخلاق" کے طورپر دیکھتی آ رہی ہے۔ آپ کو، آپ کے روشن سابقے جیسے نواب صفوی، آیت اللہ کاشانی کے قریبی یار اور امام کی تحریک میں سرگرم شخصیت کے عنوان سے جانتی ہے۔

’’جامعہ روحانیت مبارز ‘‘ کے رکن نے خبرآنلاین سے گفتگو کی۔ آپ نے انقلاب اسلامی کے کامیابی کے بعد کے دنوں کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا۔

 

خبرآنلاین: حاج آقا طباطبایی!  ۲۲ بہمن کے روز کے بعد تقریباً پہلوی حکومت کے اہم کارکنوں اور سرکردہ شخصیات کی گرفتاری شروع ہوتی ہے، اس وقت جو انقلابی احکامات اور پھانسی کے حکم سنائے گئے، ابھی بھی اپنی جگہ مبہم اور مجہول ہیں، جو جو پھانسیاں دی گئیں، آپ اسے کس قدر ضروری اور انقلاب کےلئے نقصان دہ یا مفید جانتے ہیں؟

طباطبائی: امام خمینی (رح) خود بھی بہت زیادہ ان احکامات اور پھانسیوں کے حق میں نہیں تھے اور دوسری طرف، اس بات کے منتظر تھےکہ کام بھی آگے بڑھے تاکہ انقلاب شکست نہ کھائے لیکن اس حد تک زیادتی، انتہا پسندی سے خود امام بھی خوش نہیں تھے۔

 

خبرآنلاین: آپ ان لوگوں میں سے تھے جو ان دنوں مدرسہ ’’رفاہ‘‘  آتے جاتے تھے اور قریب سے ان واقعات اور پھانسی کے احکام کے جو مدرسہ کی چھت پر جاری ہوا کرتا تھا، شاہد تھے۔ ان واقعات کے بارے میں آپ کا رد عمل کیا تھا؟

طباطبائی: میں نے وہاں بہت بحثیں کی جو یہاں نقل نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہاں میں نے اپنی باتیں واضح طور بیان کی۔ اختلاف نظریات میں بڑا فاصلہ تھا۔ میں نے اعتراض کیا کہ یہ اقدامات اور پھانسیاں بالکل مناسب نہیں ہیں۔

 

خبرآنلاین: کیا اس بارے میں امام سے بھی کوئی گفتگو کی؟

طباطبائی: بہرحال ہم اس زمانے میں اس رویے کے سخت مخالف تھے، یہاں تک کہ جناب خلخالی نے بعد میں مجھے اپنے پاس بلایا، انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا اور خواب کا نتیجہ بھی خود سے بنا چکے تھے۔ پھانسی کے جو حکم سنا چکے تھے اس سے بہت پشیمان تھے۔ اس وقت جنھوں نے بھی انتہا پسندی کی بنیاد پر حکم سنائے تھے، اکثراً پشیمان تھے۔ اس وقت بھی، انہی انتہا پسندوں کے جنس اور فکر کے افراد ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔

 

خبرآنلاین: آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی، آیت اللہ علامہ مطہری اور آیت اللہ ہاشمی کے، ان اتفاقات کے بارے میں کیا موقف اور رائے تھی؟

طباطبائی: وہ بھی تقریباً مخالف تھے۔

 

خبرآنلاین: کیا آپ کا کبھی انقلاب کے بعد ان افراد کے ساتھ جنھوں نے آپ کو جیل میں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں سامنا ہوا؟

طباطبائی: جی ہاں! میں پہلا شخص تھا جس نے باقاعدہ خط لکھا اور اعلان کیا کہ میں ان تمام افراد کو جنھوں مجھے جیل میں ٹارچل کیا انقلاب کے شکرانے میں معاف کرتا ہوں، یہاں تک مجھے اچھی طرح یاد کہ ’’کمانگر‘‘ ۱۹ رمضان المبارک کو تخریب کاریوں کے خلاف بنائی گئی کمیٹی میں مجھے اذیتیں دے رہا تھا، میں نے کہا: پہلے مجھے افطار کرنے دو پھر مارو، اس نے میرے منہ پر پیشاب کیا اور کہا افطار کر!! وہ ایام بہت ہی تکلیف دہ اور سخت دن تھے۔

 

خبرآنلاین: یہ جو کہتے ہیں، انقلاب اپنے بچوں کا کھا جاتا ہے، کیا ایران کے انقلاب میں اس کی مصداق ہے؟

طباطبائی: شاید موضوع کلی طور پر ایسا ہو۔ ایران کے انقلاب میں افسوس کے ساتھ میں کچھ لوگ ایسے نکلے ہیں جن کی کوشش ہےکہ ان افراد کو جنھوں انقلاب کےلئے اپنی جان پیش کی کنارے پر لگائیں۔ میں اس بات کو ایک خطرے کی گھنٹی جانتا ہو۔ اگر ہم انقلاب میں موثر کردار افراد کو ہٹا دیں اور حلقوں کے مابین فاصلہ ایجاد کریں، انقلاب کی تاریخ کا اثرگذاری ختم اور اصل انقلاب پر تہمت لگانے کی فضا آمادہ ہوجائے گی۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں