ایسنا رپورٹ کے مطابق، ابراهیم حسن بیگی نے ادبی سماج کی جانب سے امام خمینی کی ذات کو نمونہ بنانے کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا: خوش قسمتی سے آج کے جدید دور میں امام خمینی جیسے قابل فخر اور قابل قدر نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں، یہیں سے امام خمینی کے افکار کو سمجھنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا: پائیدار فن وہی ہے جس میں انسانی مفاہیم کو جگہ دی جائے جس کی مثال حافظ اور مولانا جیسے شاعروں کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی پائیداری کا راز اسی میں مضمر ہےکہ انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی تصورات کو منعکس کیا ہے۔ لہذا جو آثار، انسانی آثار پرمشتمل ہو وہ یقیناً پائیدار ہوتے ہیں۔
حسن بیگی نے حضرت امام خمینی کو انسانی اقدار اور نمونوں کا سرچشمہ گردانتے ہوئے کہا: امام خمینی جو ہماری طرح حیات انسانی کے مالک ہونے کے ساتھ شہر کی گلی کوچوں اور سڑکوں پر راستہ چلتے تھے، بہت سی بےنظیر صفات کے مالک تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کمال کے اعلا مدارج کو طے کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امام خمینی کی ذات، عام لوگوں سے زیادہ ادیبوں اور شاعروں کےلئے نمونہ ہے، کہا: امام خمینی نے سختیوں اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے جد وجہد کو جاری رکھا تاکہ ایمان کے اعلا درجہ پر فائز ہونے کے ساتھ، کمال انسانی کے مرحلے پر قدم رکھ سکے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی کمال کا حصول امام خمینی کا سب سے بڑا ہدف تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں امام خمینی کا شمار ان گنے چنے افراد میں ہوتا ہے جو اس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
حسن بیگی نے مزید کہا: امام خمینی(رح) کے افکار اب بھی زندہ ہے۔ محققین اور اساتذہ کے علاوہ فنکاروں اور ہنرمندوں کو مسلسل پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور تحریروں اور کردار کی صورت میں موجود، امام خمینی کے آثار سے انہیں ہمیشہ وابستہ رہنا چاہئے۔
حوالہ: http://isna.ir/fa/news