جب 1978-79 میں نےامام خمینی کے بارے میں خاص طور سے ایرانی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے بہت تعجب ہوا کیوں کہ امام خمینی ہماری صدی کے پہلے مذھبی رھبر ہیں کہ جو ایسا انقلاب لائے ہیں جس میں مذھبی، سیاسی اور ثقافتی تینوں پہلو شامل تھے۔ ہماری صدی کے سارے انقلابی سیاسی اور اجتماعی انقلاب تھے اسی لئےان کے انقلاب مذھبی رنگ و بو سے دور تھے اور آج ان کا طریقہ کار پرانا ہو گیا ہے اور انکے حامی ختم ہو رہے ہیں لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ پہلے مذھبی رھبر تھے جنھوں نے دین، سیاست اور ثقافت کو ایک جگہ جمع کر دیا اور اسی لئےیہ انقلااب جاری و ساری رہے گا۔
امام خمینی کے حیرت انگيز کاموں میں سے ایک جوان نسل سے گہرا رابطہ ہے۔ اس کے باوجود کہ انکی زندگی کا ایک بڑا حصہ گذر چکا تھا لیکن وہ جوان نسل کو میدان میں لائے۔ عام طور پر جوان نسل کی عمر کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کی باتوں کا اثر لیتے ہیں لیکن ایران کے جوانوں نے انقلاب کے دوران اپنی عمر سے پانچ گنا بڑے آدمی کی بات سنی جبکہ دنیا کے تمام انقلاب کے رھبر انقلاب کے دوران یا تو جوان ہوتے تھے یا ادھیڑ عمرکے۔ اس عظیم کامیابی کا راز میں امام خمینی کی شخصیت میں دیکھتا ہوں۔ وہ نہ صرف انسانی اور اخلاقی اقدار کےحامل تھے بلکہ ان کا ایمان بھی نہایت ہی پختہ اور گہرا تھا بلکہ نہایت بزرگ عالم اور زمانے کے حالات سے آگاہ فقیہ تھے۔
وہ سیاست، سماجیات اور اقتصادیات کی وسیع معلومات رکھتے تھے کیونکہ ان علوم کے بغیر ایک مذہبی عالم اس طرح عظیم انقلاب نہیں لاسکتا اور نہ امریکہ اور دیگر طاقتوں کی پٹھو حکومت کو اکھاڑ پیھینک سکتا ہے جو ایران میں برسر اقتدار تھی۔
دوسرا اھم نکتہ یہ ہے کہ میں نے امام خمینی کے انقلاب میں اس بات کا احساس کیا ہے کہ اسلامی انقلاب بھرپور طرح سے ایک عوامی انقلاب تھا نہ کہ فرانس کے انقلاب کی طرح جو جان جیک روسو ،ولٹر اور ڈیڈرو جیسے روشنفکر لوگوں کی دین ہے۔ حقیقت میں ایران کے اسلامی انقلاب کو عوامی انقلاب کا نام دینا چاہئے۔