آج دنیا کے تمام گوشوں میں ہمارے مخاطبین موجود ہیں اور اس وقت دنیا کے کونے کونے میں شیعیت پھیل چکی ہے اسی لئے موجودہ دور میں ہم پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ آج ہمیں عالمی سوچ کا حامل ہونا چاہیے۔ اسی نکتے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تاریخ تشیع میں پہلی مرتبہ آیت الله العظمی بروجردی نے کچھ شیعہ مبلغین کو یورپ روانہ کیا اور پہلی بار یورپ میں مسجدوں کی تعمیر کروائی۔ ہمارے علمی اثاثوں میں مالک اشتر کے نام امیر المومنین علیہ السلام کا عہد نامہ ہے جس کو اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں شامل کرتے ہوئے اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنالیا ہے۔
امام خمینی علیہ الرحمہ نے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اسلامی جمہوریت کی بنیاد رکھی اور ہمیں معاشرے میں فکری تسلط کو قائم رکھتے ہوئے بغیر کسی جبر و استبداد کے، اس حکومت کی حفاظت نہایت ضروری ہے، جس طرح کی انقلاب سے پہلے مساجد میں پر جوش جلسوں کے ذریعے لوگوں کو جذب کیا جاتا تھا اور بسا اوقات ہزاروں افراد گرمجوشی کے ساتھ ان جلسوں میں شریک ہوتے تھے، آج بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آج لوگوں کو علی بن ابی طالب علیہ السلام یا پھر عاشور سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ 1400 سال کے دوران ایران سمیت بہت سے ممالک میں بیداری کی لہر، تحریک عاشور کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قیام عاشور سے درس لیتے ہوئے انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اور اس وقت اہل تشیع سمیت تمام مسلمان اس انقلاب کے وارث ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانے میں ایک بہترین ثقافتی تحریک کو پروان چڑھایا کہ اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو شیعہ طرز تفکر اور مکتب عاشور میں پیشرفت کی توقع ممکن نہیں تھی۔
آج وہابیت اور داعش جیسے شیعہ دشمن عناصر شیعوں کے قتل عام میں مصروف ہیں تاہم شیعوں کو اس کا کوئی خوف لاحق نہیں کیونکہ شہادت شیعوں کی میراث ہے۔ تکفیریوں کی صورت میں موجود شیعوں کے دشمن ہر قسم کی منطق سے عاری ہیں۔ اگر ان کے یہاں منطق نامی کوئی چیز ہوتی تو وہ اسی کے ذریعے ہمیں شکست دینے کی کوشش کرتے مگر ان کے یہاں منطق کارفرما نہیں اسی لئے وہ خودکش جیکٹس استعمال کرتے ہیں۔
تکفیری اور وہابیوں کے بر عکس شیعیت اپنی حقانیت کی وجہ سے پیشرفت کر رہی ہے اور اس وقت مکتب تشیع، ائمه علیهم السلام، خاص کر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حفاظت و عنایت کے سائے میں پرواں چڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمیں ہرگز یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ ہم اس مکتب کی بساط کو محفوظ بنا رہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں بلکہ ائمه علیهم السلام، ہماری اور اس مکتب کی حفاظت کر رہے ہیں۔
امید ہےکہ خدا ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھانے کی توفیق عطا کرے۔
حوالہ: آیت الله علوی بروجردی ویب سائٹ