امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کی ایک دوسری خصوصیت، اخلاقی تعلیمات کو بیان کرنے کے سلسلے میں کلام میں سادگی اور بے تکلفی ہے کچھ لوگوں کایہ غلط تصور وخیال ہے کہ گاڑھے گاڑھے، دشوار الفاظ اور مشکل اصطلاحات کا استعمال کرنا علمیت وقابلیت کی علامت ہے اور اس کے برعکس سادے الفاظ میں اپنے مقصود کو بیا ن کرنا کم علمی کی نشا نی ہے حالا نکہ امام خمینی (ره)کو علی الاطلاق اور بالعموم مرجعیت کا درجہ حاصل تھا اور ا نقلاب اسلامی کی قیاد ت بھی آپ کے سپرد تھی آپ ا ن خیالات کی طرف کوئی توجہ نہ دیتے تھے آپ نے قرآن مجید کی تأسی کی اور ’’بلاغ مبین‘‘ کا طریقہ اختیار فرمایا چنا نچہ پوری تاریخ میں انبیاء الٰہی کا بھی یہی طریقہ وشیوہ رہا ہے وہ حضرات عوام کی زبا ن اور فہم وادراک کو معیار سمجھتے تھے:
’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اﷲُ مَنْ یَشَائُ وَیَہْدِی مَنْ یَشَائُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ‘‘ (سورۂ ابراہیم ، ۱۴؍۴)
جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ بھی ارشاد فرماتے ہیں : ’’انا معاشر الانبیاء امرنا ان نکلم الناس علیٰ قدر عقولہم‘‘ ہم تمام انبیاء کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ا ن کی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں ۔(تحف العقول،ص ۳۲)
امام خمینی(ره) بڑی دقت کے ساتھ اپنے مخاطب حضرات کے ذوق اور ا ن کے درک وفہم کی رعایت کرتے تھے آپ سامع کے ذہن کو ابہام وپیچیدگی کی تلخی میں گرفتار نہیں کرتے تھے لہذا ان کی اذیت کا باعث بھی نہیں بنتے تھے۔
ایک شخص آنحضرت(ص) کی خدمت بابرکت میں اپنے فضائل و کمالات اور تکلف کو بیا ن کرنے لگا تو آپ (ص) نے فرمایا:’’ انا واتقیاء امتي براء من التکلف‘‘میں او ر میری امت کے تمام پرہیزگار لوگ تکلف سے بیزارہیں ۔
یہ بیا ن کر دینا ضروری ہے کہ امام خمینی(ره) کی اخلاقی تعلیمات اپنی سادگی کی وجہ سے معنی اور مضمون کے لحاظ سے ذرا بھی ضعف نہیں رکھتیں ، ابہام وتکلف سے دور رہنے کی وجہ سے ا ن میں تکرار یا کمزور مطالب نہیں ہیں بلکہ امام خمینی (ره) کی اخلاقی تعلیمات آپ کے دوسرے دروس اور آثار کی طرح تعلیمی مطالب سے سرشار ہیں جس طرح آپ علم فقہ وعلم اصول اور فلسفہ میں کئی کئی گھنٹے مشغول رہتے تھے اسی طرح تربیتی آثار کے سلسلے میں بھی سالہاسال کوشش وتجربہ اور غور وفکر کے بعد اشراق کو دفتر ارشاد میں لکھتے تھے۔
آپ کے جو ارشادات وہدایات باقی ہیں ا ن میں سادگی کے ساتھ بڑی رسائی ہے وہ تعلیم وتربیت، تشویق توبیخ، برہان وبصیرت، سنت وسیاست، حکمت حکومت، معاش ومعاد اور اعتقاد جہاد سے لبریز ہیں ۔
امام خمینی (ره)کے اخلاقی آثار نے ان غلط خیالات کو طاق نسیان پر رکھ دیا جن میں یہ خیالات ہیں : ’’اخلاقی پند ونصیحت صرف کچھ مخصوص آہنگ کے ساتھ چند تذکرات اور کچھ گفتار ہیں ان میں تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ تو مطالب میں پختگی ضروری ہے‘‘ بلکہ آپ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر درس وبحث میں (چاہے وہ فقہی، اصولی واخلاقی ہی کیوں نہ ہوں) تحقیق اور غور وفکر سے استفادہ کرنا چاہئے اور ا نہیں بیا ن کر نے سے پہلے خود اپنی روح وجا ن میں ہضم کرلینا چاہئے پھر دوسروں کے صفحہ قلب پر اتارنا چاہئے۔
امام خمینی(ره) اپنی ان کتابوں اربعین، آداب الصلاۃ، جہاد اکبر، سرالصلوۃ، شرح حدیث جنود عقل وجہل وغیرہ میں اہل سیر وسلوک کے درجات ومراتب، حضور قلب اخلاق کے آداب، اخلاق کے فضائل اور اصول، بہت سے نفسا نی رذائل کی جڑوں اور بہت سے بلند دینی معارف کے ارکان کو بڑی مہارت اور استادی سے بیان کرتے ہیں اور مطلب کو بغیر کسی پیرائے کے پیش کرتے ہیں اور بغیر کسی معطلی وتطویل کے مقصد کو بیان فرماتے ہیں ، آپ لفظی جدال اور فضول قیل وقال سے دور رہتے ہوئے ہر نکتہ کو سادگی کے ساتھ جاندار اور پر مغز صورت میں بیان کرتے تھے اگرچہ آپ بالکل یہی عام فہم زبان میں بات کرتے تھے لیکن ملال آور تکرار اور خواہ مخواہ کی تفصیل سے پرہیز کرتے تھے۔