پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "انا من حسین"

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "انا من حسین"

"انا من حسین" یعنی دین و دیانت کا تحفظ امام حسین (ع) ہی کریں گے۔

نام و نسب

اسم گرامی: حسین (ع)

لقب: سید الشھداء

کنیت: ابو عبد اللہ

والد کا نام: علی (ع)

والدہ کا نام: فاطمہ زھرا (ع)

تاریخ ولادت: ۳/ شعبان ۴ھء

جائے ولادت: مدینہ منورہ

مدت امامت: ۱۲/ سال

 عمر: ۵۷/ سال

تاریخ شھادت: ۱۰/ محرم الحرام ۶۱ھء

شھادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم

روضہ اقدس: کربلائے معلّیٰ

اولاد کی تعداد: ۴ / بیٹے اور ۲ / بیٹیاں

بیٹے: (۱) علی اکبر (۲) علی اوسط (۳) جعفر (۴) عبد اللہ (علی اصغر)

بیٹیاں: (۱) سکینہ (۲) فاطمہ

 

ہجرت کے چوتھے سال، تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داھنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منھ میں دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کا گھوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش ہونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گھوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبر  اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پھنچانے کےلیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔

جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حالات میں لکھا جاچکا ہےکہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص) اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے، سینہ پر بٹھاتے تھے، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔

رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کےلیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں۔ مستقبل نے بتا دیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رہےگا۔ 

امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے کلام معصوم کو اس طرح وضاحت فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "انا من حسین" یعنی دین و دیانت کا تحفظ امام حسین (ع) ہی کریں گے اور اس قربانی نے اسلام کی دیانت کو اب تک محفوظ رکھا ہے اور ہمیں اس کا تحفظ کرنا چاہئے اور بعض لوگوں کے فریب میں آنے والے یہ نوجوان اس حقیقت سے غافل ہیں۔

(صحیفہ امام، ج۱۰، ص۱۲۰)

اور فرمایا: سید الشهداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکها ہے۔

امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طھارت کا باقاعدہ مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت، آپ کے زہد، آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا: "حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے"

حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھےکہ جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کےلئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی۔ اب تمھارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو، کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو۔

آپ کی اخلاقی جراَت، راست بازی اور راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل اور ثبات و استقلال، صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں۔ ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے۔ آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔


ماخذ: بمعہ تصرفات، تبیان نٹ

ای میل کریں