انبیائے الہی کو کن بنیادوں پر مبعوث کیا گیا اور کس لئے اس دنیا میں بھیجے گئے، یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ جس کے جواب سے ہم نے پہلو تہی کی، اس کی وجہ یا تو ہماری کوتاہ فکری رہی یا پھر دشمن کی عیاری۔۔۔۔۔ کتابوں میں لکھے تاریخی واقعات، ضمنی اخلاقی کردار اور سیرت کو انکی رسالت و نبوت کا مقصد سمجھتے رہے حالانکہ قرآن ہمیں بار بار آواز دیتا رہا کہ:
’’بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے۔ سوره حدید‘‘
اور امام خمینی (رہ) نے اپنے افکار میں بعثت انبیاء (ع) کی تجلیات کو اجاگر کیا ہے اور مختلف مقامات پر فرمایا ہے کہ انبیاء (ع) ظلم سے ٹکرانے اور اس کا قلع قمع کرنے اور دیانت و عدالت قائم کرنے کیلئے تشریف لائے تھے۔ امام خمینی (رہ) مقصد بعثت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جناب ابراہیم علیہ السلام کو ملاحظہ کریں کہ انہوں نے تمام بتوں کو توڑ ڈالا تھا اور اپنے زمانے کے قوی لوگوں سے عوام کی بھلائی کیلئے ٹکرا گئے تھے، تاکہ یہ لوگ عام انسانوں پر ظلم نہ کرنے پائیں۔‘‘
’’حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور بادشاہ مصر فرعون سے ٹکرا گئے اور بادشاہ مصر کی طرح عوام کو خواب خرگوش میں سلایا نہیں بلکہ اپنے اسی عصاء اور تبلیغات کے ذریعہ اپنے عہد کے ظالم بادشاہ کے خلاف عوام کو لاکھڑا کیا‘‘
پیغمبر اسلام (ص) بھی انبیاء سلف کی مانند اسی مقصد کے تحت مبعوث ہوئے اور پوری زندگی جہاد و کارزار میں مصروف رہے۔ مکہ میں بعثت سے لیکر مدینہ ہجرت تک اور مدینہ میں زندگی کے آخری لمحات تک، اسی مقصد کو پیش نظر رکھا کہ ظلم کے خلاف قیام کریں اور دیانت و عدالت معاشرے میں قائم ہو۔ بعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کر سکیں ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم (ص) کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میں پرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ دنیا کے مسائل، عرفانی حقائق، فلسفی نکات اور دیگر مسائل سے قطعی طورپر آشنا نہیں تھے۔ آنحضرت (ص) نے پوری زندگی اسی خطے میں گزاری صرف ایک مختصر مدت کیلئے آپ سفر پر تشریف لے گئے اور لوٹ آئے۔ جب ایک انسان اس وقت کو دیکھتا ہے کہ جب آپ(ص) رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپ نے ایسے مطالب پیش کیے کہ جن کا پیش کرنا اور ان کا فہم وادراک بشریت کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کیلئے پیغمبر (ص) کی نبوت پر دلیل ہے حالانکہ رسول اکرم (ص) بذات خود ان مطالب کو بیان نہیں کرسکتے تھے، نہ آپ (ص)نے تحصیل علم کیا اور نہ ہی آپ(ص) لکھنا جانتے تھے۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کیلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم (ص) کیلئے اور ان خاص الخاص افراد کیلئے جو آپ (ص)سے مربوط ہیں۔
امام خمینی فرماتے ہیں:
’’جب پیغمبر اسلام (ص) حجاز میں تھے تو ابتدا میں جن طاقتور افراد سے مقابلہ تھا، ان میں سے ایک گروہ مکہ میں بہت مضبوط اور قوی تاجروں کا تھا اور ایک گروہ طائف میں تھا۔۔۔۔ابو سفیان اور اسکے جیسے سب حکام و سلاطین کی مانند تھے ۔۔۔۔ پیغمبر اسلام (ص) ان سے ٹکرا گئے۔۔۔۔۔اور پیغمبر (ص) نے انہی غریب انسانوں کو ان امیروں کے خلاف صف آراء کر دیا، جو عوام پر ظلم کرتے تھے‘‘
یہی وہ سیاست الہیہ تھی جو مقصد مبعث انبیا (ع) رہی ہے اور افسوس کے ساتھ آج کا مسلمان اسی مقصد کو فراموش کرچکا ہے، مقصد رسالت بھول گیا ہے، اسلام مخالف طاقتوں نے اور ہماری نادانی نے ہمیں اسلام و قرآن سے اتنا دور کر دیا ہے کہ اب خود مسلمان ۔۔۔۔۔ اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوگیا ہے۔
انبیائے الہی کو کن بنیادوں پر مبعوث کیا گیا اور کس لئے اس دنیا میں بھیجے گئے، یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ جس کے جواب سے ہم نے پہلو تہی کی، اس کی وجہ یا تو ہماری کوتاہ فکری رہی یا پھر دشمن کی عیاری۔۔۔۔۔ کتابوں میں لکھے تاریخی واقعات، ضمنی اخلاقی کردار اور سیرت کو انکی رسالت و نبوت کا مقصد سمجھتے رہے حالانکہ قرآن ہمیں بار بار آواز دیتا رہا کہ:
’’بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے۔ سوره حدید‘‘
اور امام خمینی (رہ) نے اپنے افکار میں بعثت انبیاء (ع) کی تجلیات کو اجاگر کیا ہے اور مختلف مقامات پر فرمایا ہے کہ انبیاء (ع) ظلم سے ٹکرانے اور اس کا قلع قمع کرنے اور دیانت و عدالت قائم کرنے کیلئے تشریف لائے تھے۔ امام خمینی (رہ) مقصد بعثت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جناب ابراہیم علیہ السلام کو ملاحظہ کریں کہ انہوں نے تمام بتوں کو توڑ ڈالا تھا اور اپنے زمانے کے قوی لوگوں سے عوام کی بھلائی کیلئے ٹکرا گئے تھے، تاکہ یہ لوگ عام انسانوں پر ظلم نہ کرنے پائیں۔‘‘
’’حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور بادشاہ مصر فرعون سے ٹکرا گئے اور بادشاہ مصر کی طرح عوام کو خواب خرگوش میں سلایا نہیں بلکہ اپنے اسی عصاء اور تبلیغات کے ذریعہ اپنے عہد کے ظالم بادشاہ کے خلاف عوام کو لاکھڑا کیا‘‘
پیغمبر اسلام (ص) بھی انبیاء سلف کی مانند اسی مقصد کے تحت مبعوث ہوئے اور پوری زندگی جہاد و کارزار میں مصروف رہے۔ مکہ میں بعثت سے لیکر مدینہ ہجرت تک اور مدینہ میں زندگی کے آخری لمحات تک، اسی مقصد کو پیش نظر رکھا کہ ظلم کے خلاف قیام کریں اور دیانت و عدالت معاشرے میں قائم ہو۔ بعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کر سکیں ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم (ص) کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میں پرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ دنیا کے مسائل، عرفانی حقائق، فلسفی نکات اور دیگر مسائل سے قطعی طورپر آشنا نہیں تھے۔ آنحضرت (ص) نے پوری زندگی اسی خطے میں گزاری صرف ایک مختصر مدت کیلئے آپ سفر پر تشریف لے گئے اور لوٹ آئے۔ جب ایک انسان اس وقت کو دیکھتا ہے کہ جب آپ(ص) رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپ نے ایسے مطالب پیش کیے کہ جن کا پیش کرنا اور ان کا فہم وادراک بشریت کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کیلئے پیغمبر (ص) کی نبوت پر دلیل ہے حالانکہ رسول اکرم (ص) بذات خود ان مطالب کو بیان نہیں کرسکتے تھے، نہ آپ (ص)نے تحصیل علم کیا اور نہ ہی آپ(ص) لکھنا جانتے تھے۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کیلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم (ص) کیلئے اور ان خاص الخاص افراد کیلئے جو آپ (ص)سے مربوط ہیں۔
امام خمینی فرماتے ہیں:
’’جب پیغمبر اسلام (ص) حجاز میں تھے تو ابتدا میں جن طاقتور افراد سے مقابلہ تھا، ان میں سے ایک گروہ مکہ میں بہت مضبوط اور قوی تاجروں کا تھا اور ایک گروہ طائف میں تھا۔۔۔۔ابو سفیان اور اسکے جیسے سب حکام و سلاطین کی مانند تھے ۔۔۔۔ پیغمبر اسلام (ص) ان سے ٹکرا گئے۔۔۔۔۔اور پیغمبر (ص) نے انہی غریب انسانوں کو ان امیروں کے خلاف صف آراء کر دیا، جو عوام پر ظلم کرتے تھے‘‘
یہی وہ سیاست الہیہ تھی جو مقصد مبعث انبیا (ع) رہی ہے اور افسوس کے ساتھ آج کا مسلمان اسی مقصد کو فراموش کرچکا ہے، مقصد رسالت بھول گیا ہے، اسلام مخالف طاقتوں نے اور ہماری نادانی نے ہمیں اسلام و قرآن سے اتنا دور کر دیا ہے کہ اب خود مسلمان ۔۔۔۔۔ اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوگیا ہے۔