شہید آیت اللہ مرتضی مطہری کو امام خمینی (رہ) نے اپنا بیٹا کہا اور ایک پھل دار درخت کے نام سے یاد کیا امام(رہ) نے فرمایا کہ: یہ ان ستاروں میں سے ایک ہے جو عمل کو ایمان،اخلاق کو عرفان، برھان کو قرآن، علم کو حکمت اور اپنی شہادت سے سماج کی ہدایت، اور تاریکیوں کی ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے سماج کے لیے مشعل راہ تھاجو ایک چراغ کی طرح جلتا رہا اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے نور کی کرنوں سے منور کرتا رہے۔
شہید مطہری علمی نگاہ سے علوم اور معارف کا ایک خزانہ ہے اور دینی اخلاقی میدان میں بہترین نفس اور ایسی روح کے مالک ہیں جو دینی قواعد کی مقید اور عبادت گزار ہے حضرت محمد (ص) اور حضرت ابراہیم (ع) کے سچے پیرو کار کے عنوان سےایک طرف حوزہ کے طلاب کے لیے بہترین نمونۂ عمل ہیں اور دوسری طرف ہمارے معاشرہ میں ملحدانہ افکار کے مالک اور دین سے دور یونیورسٹی کے طلباء کے لیے راہ راست پر آنے کے لیے بہترین مشعل راہ ہیں ،اسی لئے تو امام خمینی (رہ) شہید مطہری (رہ) کے متعلق فرمایا کہ:
آپ بہنو اور بھایو جو اس مدرسہ(مدرسہ عالی شہید مطہری )میں ہیں آپ اپنے پروگراموں کو اس طرح ترتیب دیجئے کہ یہاں سے کئی ایک مطہری وجود میں آئیں ،یونیورسٹیوں ،فیضیہ،اور سارے علمی مراکز جو یونیورسٹیوں اور فیضیہ سے مربوط ہیں انکو چاہییے کہ اخلاقی اور تہذیبی پروگراموں کو اپنے پروگراموں میں اولویت دیں تاکہ مرحوم مطہری (رہ) جیسی شخصیات کو سماج کے حوالے کر سکیں۔
صحیفہ امام، ج 14، ص 168 و 169
امام (رہ) کے حقیقی اور واقعی کلام میں شہید مطہری (رہ) کے طاہر اور پاک وجود کو پھل دار درخت سے تشبیہ دی گئی ہے، ظاہرا کلمہ طیبہ سے مراد وہی شجرہ طیبہ ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کرتے ہوے کہا کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی طرح ہے۔
شہید مطہری (رہ) کلمہ طیبہ کا ایک مصداق ہیں جو کامل طور پر شجرہ طیبہ سے شباہت رکھتا ہے اور ہمیں چاہییے کہ ان کہ اس پھلدار درخت سے مستفیذ ہوں ، وہ ایسے وجود کے مالک ہیں جس کے نہ ہونے کی صورت میں جتنا بھی رویا اور افسوس کا اظہار کیا ہے کم ہے،جیسا کہ امام (رہ) نے فرمایا کہ: امید یہ تھی کہ پھلوں سےلدے ہوئے اس درخت سے جتنے پھل چنے گئے ہیں اس سے کہیں زیادہ چنے جائیں اور اس کے ذریعہ عظیم مفکرین معاشرہ کے حوالے کیے جائیں لیکن افسوس ہے کہ ظالموں اور جنایتکاروں نے ہمارے جوانوں کو اس عظیم درخت کے پھل سے محروم کر دیا پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ ان کا علمی سرمایا جتنا ہمارے پاس ہے وہ اپنی جگہ ایک مربی اور معلم ہے۔
صحیفہ امام، ج 14، ص 325
امام رضوان اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :نہایت ہی افسوس ہے کہ ظالموں اور جنایتکاروں نے اس عظیم شخصیت کو دینی معاشرہ اور دینی حوزوں سے چھین لیا۔ مطہری میرے لیے عزیز بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے اور حوزہ علمیہ اور ملک کے لیے ایک نہایت ہی دردمند اور مخلص نیز مفید پشت پناہ تھے۔
صحیفہ امام، ج 12، ص 187
امام وہی بزرگ ہستی ہیں جو شہید مطہری کو اپنی عمر کا نچوڑ اور ماحصل سمجھتے ہیں اور اپنے جگر کا ٹکڑا کہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک بہت ہی عزیز بیٹے کو کھو دیا ہے اور اس کے سوگ میں بیٹھا ہوا ہوں ، وہ ان ہستیوں میں سے ایک تھے جو میری عمر کا حاصل ہیں، اس باوقار بیٹے کی شہادت سے عالم اسلام میں ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے کہ جس کو کوئی بھی چیز بھر نہیں سکتی۔
صحیفہ امام، ج 7، ص 178
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :میں نے اگر چہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کھویا ہے لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اسلام کے دامن میں اتنے عظیم اور بہادر جوان کل بھی موجودتھے اورآج بھی ہیں، قوت بیان، طہارت روح اور ایمان کی طاقت میں مطہری کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لیکن برا چاہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے سے ان کی اسلامی اور فلسفی شخصیت ختم نہیں ہوجائے گی۔
صحیفہ امام، ج 7، ص 178