امام خمینی(ره) نے انتظار کی اصطلاح کا حقیقی مفہوم بیان کرتے ہوئے اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں فرمایا: ’’۔۔۔ جس دن انشاء اللہ مصلح کل (امام مہدی ؑ) ظہور فرمائیں گے ، آپ یہ خیال نہ رکھیں اس دن کوئی معجزہ رونما ہوگا اور ایک ہی دن میں دنیا سدھر جائے گی، بلکہ سعی و کوشش اور قربانیوں سے ظالم کچل کر پس منظر میں چلے جائیں گے اور اگر آپ کی رائے بھی بعض عام گمراہ افراد کی طرح ہے کہ آنحضرت ؑ کے ظہور کے لئے کفر اور ظلم کے فروغ کی کوششیں بروئے کار لانا چاہئے تاکہ دنیا پر ظلم و ستم چھاجائے اور ظہور مہدی ؑ کے لئے فضا سازگار ہوجائے تو {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن}‘‘۔( صحیفہ امام ، ج۲، ص ۲۰۲)
امام خمینی(ره) نے ۱۹۸۸ ء میں ۱۵ شعبان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’بعض لوگوں کے نزدیک انتظار فرج سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں ، امام بارگاہوں اور گھروں میں بیٹھ کر خداوند عالم سے امام زمانہ ؑ کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ دنیا کو معصیت و گناہ سے بھر جانا چاہئے تاکہ حضرت مہدی ؑ ظہور فرمائیں اور برائیوں سے نہیں روکنا چاہئے اور نیکیوں کی طرف دعوت نہیں دینا چاہئے ، بلکہ لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے تاکہ گناہوں میں اضافہ ہوجائے اور ظہور مہدی ؑ قریب تر ہوسکے، ایک طبقہ تو اس سے بڑھ کر کہتا تھا : گناہ کا ارتکاب کرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی گناہ کرنے کی ترغیب دینی چاہئے تاکہ دنیا ظلم و ستم سے بھر جائے اور امام زمانہ ؑ ظہور فرما سکیں! ایک اور گروہ کا کہنا تھا کہ جب تک امام زمانہ ؑ نظروں سے اوجھل ہیں جو بھی حکومت بنے گی وہ ناجائز اور اسلام کے خلاف ہے۔ وہ بعض منقولہ روایات و احادیث پر بھروسہ کئے ہوئے تھے۔ فرض کیجئے کہ کچھ روایات و احادیث ضروریات اسلام کے خلاف ہوں تو کیا وہ قرآن کے خلاف نہیں ہوں گی؟ یہ (کیا بات ہے) کہ ہم گناہ کے مرتکب ہوجائیں تاکہ حضور ؑ تشریف لائیں ! صاحب الزمان ؑ ظہور فرمائیں جو یقینا ظہور فرمائیں گے، کیا ہم قرآنی آیات کی مخالفت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑدیں اور گناہوں کو فروغ دیں تاکہ امام زمانہ ؑ تشریف لائیں ! اور اب انسان کی کوئی ذمہ داری نہ رہی بلکہ اس کی یہ ذمہ داری رہ گئی ہے کہ لوگوں کو برائیوں کی طرف دعوت دے! کیا ہمیں بیٹھ کر صدام کے لئے دعا کرنا چاہئے اور جو صدام سے نفرت کا اظہار کرتا ہے وہ احکام (اسلام) کی مخالفت کر رہا ہے ؟ کیونکہ اس سے امام ؑ کے ظہور میں دیر ہوجائے گی!کیا ہم امریکہ، روس اور ان کے پٹھوؤں کے لئے دعاگو بن کر رہیں ؟ جس دین کا یہ کہنا ہو کہ حکومت ضروری نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ افراتفری ہونا چاہئے۔ آپ کائنات کا ایک حصہ ہیں ، اگر ہم ظلم کے سامنے ڈٹ سکتے ہیں تو ڈٹنا چاہئے۔ یہ ہمارا فرض اور قرآن اور اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ قرآن نے حکم دیا ہے کہ اس راہ میں جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے ہمیں انجام دینا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام ، ج۱۰، ص ۱۹۶)