خمینی اور ملت کا قیام، ایرانی شہنشاہیت کا اختتام

خمینی اور ملت کا قیام، ایرانی شہنشاہیت کا اختتام

دوسری طرف شاہ کے آمرانہ فیصلوں کے خلاف آیت اللہ خمینی اپنے ہم وطنوں کی راہنمائی جاری رکھتے ہیں۔

ایران پر پہلوی خاندان کا تسلط تھا۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے حامی جرنیلوں نے وزیر اعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کی پارٹی کے ہزاروں ارکان کو تہ تیغ کر ڈالا!! دراصل شہنشاہ نے اپنی آزادی مغربی اقوام کے گرویرکھی ہوئی تھی، اسے محمد مصدق کے آزادانہ فیصلے کسی طور ہضم نہ ہوتے تھے، لہذا عہدے سے برخاستگی ان کا مقدر بنی، مگر ایرانی سیاست میں شاہ مخالف عنص کی حیثیت سے اپنا ایک اثر چھوڑ گئی۔

۱۳ اکتوبر ۱۹۶۴ء کا دن آتا ہے۔ شہنشاہ ایران نے ایک قانون کے ذریعے امریکی فوجی مشن کو سفارت کاروں کے ہم پلہ وہ حقوق دے دیے جاتے ہیں جو ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو حاصل ہیں، یعنی ان پر ایرانی قانون لاگو نہ ہوگا۔ اگلے دن مذہبی راہنما آیت اللہ خمینی نے قم میں تقریر کرتے ہوئے گہا: "اس شخص نے ہمیں بیچ ڈالا، ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا ڈالی ہے۔ اہل ایران کا درجہ امریکی کتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے!!

اگر شاہ ایران کی گاڑی کسی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہوگا، لیکن کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا اعلیٰ ترین عہدے داروں کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے!! آخر کیوں؟! کیونکہ ان کو امریکی قرضے کی ضرورت ہے!!

اے نجف، اے قم، اے مشہد، اے تہران و شیراز کے لوگو! میں تمہیں خبردار کرتا ہوں۔ یہ غلامی مت قبول کرو۔ کیا تم چپ رہوگے اور کچھ نہ کہو گے؟! کیا ہمارا سودا کردیا جائے اور ہم زبان نہ کھولیں"؟!

شاہ ایران کے منظور کردہ قانون کے خلاف احتجاج کی لہر کے دوران آیت اللہ خمینی کو گرفتار کرکے ترکی، عراق اور آخرکار فرانس جلا وطن کردیا جاتا ہے۔

ادھر شاہ ایران اپنے مسند اقتدار پر نازاں ہے۔ وہ ۱۹۷۱ء میں ایران میں شہنشاہیت کے ڈھائی ہزار سالہ جشن کا اہتمام کرتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق، ۱۰۰ ملین امریکی ڈالر اس جشن کی نذر کردیے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں حالت یہ ہے کہ تمام دفاعی ٹھیکے اور تیل کی تجارت امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ شاہی خاندان کا لوٹ کھسوٹ سے جمع کیا گیا پیسہ مغربی بینکوں میں محفوظ، جبکہ لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ عملاً ایران، امریکا کی کالونی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔

دوسری طرف شاہ کے آمرانہ فیصلوں کے خلاف آیت اللہ خمینی اپنے ہم وطنوں کی راہنمائی جاری رکھتے ہیں۔

شاہ کی حکومت چوکنا ہوجاتی ہے اور دباو ڈالر کر خمینی پر عراق کی سرزمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ ۵ جولائی ۱۹۷۸ء کو فرانس میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں اور اپنی تحریک کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں ایران میں شاہ کی مخالفت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ رضا شاہ اقتدار پر اپنی ڈھیلی پڑتی گرفت کو مضبوط کرنے کےلئے مارشل لا کا اعلان کردیتا ہے۔ اس کے باوجود ۸ ستمبر ۱۹۷۸ء کو شاہ کی مخالفت میں ہزاروں افراد تہران میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مظاہرین اور سرکاری اہل کاروں کے درمیان خونریز تصادم کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں، تاہم تہران حکومت محض ۸۶ ہلاکتوں کی ہی تصدیق کرتی ہے۔

ایرانی عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاج کے باعث شاہ کےلئے حالات بدستور بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء کو شاہ رضا شاہ پہلوی ملک سے چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد آیت اللہ خمینی یکم فروری ۱۹۷۹ء کو ۱۴ سال جلا وطنی کے بعد تہران لوٹ آتے ہیں۔ ہوائی اڈے پر لاکھوں افراد کا استقبال غیر اعلانیہ طورپر انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور شاہ کے خلاف باغیانہ روش ملک بھر میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ آیت اللہ خمینی کے کارکنان سرکاری عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

سرکاری فوج عوام کے خلاف کسی بھی کار روائی سے انکار کردیتی ہے۔ شاہانہ جاہ وجلال رکھنے والے رضا شاہ پہلوی کی نام زد حکومت [بختیار حکومت] کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح بکھر کر رہ جاتی ہے اور خلق خدا کا سمندر آمرانہ اور شخصی حاکمیت کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ ہزار سالہ جشن کرنے کے باوجود رضا شاہ پہلوی کو اقتدار سے رسوا کن انداز میں ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور اکیسویں صدی سے محض دو عشروں قبل اپنی نوعیت کا یہ منفرد انقلاب مکمل ہوجاتا ہے۔ ایران کو اسلامی جمہوری مملکت قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کی خودداری اور خودمختاری کا دور شروع ہوتا ہے۔

 

ماخذ بمعہ اصلاحات:

http://gujarkhanexpress.com/

ای میل کریں