امریکہ کے ساتھ ہماری دشمنی، اقتصادی اور معیشتی بائیکاٹ کی خاطر نہیں، ہماری دشمنی کی بنیاد امریکی سیاست کی استکباری درندگی اور جارحیت پسندی ہے۔ سامراج، امریکہ کی سر کردگی میں چاہتا ہے کہ ہمیں اندر سے فرسودہ و بوسیدہ بنائے اور ہماری اسلامی اقدار کی بنیادوں کو جڑ سے ختم کرے اور جس طرح وہ چاہتا ہے اور جو وہ پسند کرتا ہے، ہم اسی طرح رہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ آج ہماری ذلت، تمام عالم کے مظلوموں کی ذلت کے مساوی ہے۔ آمریکہ آج بھی ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور ہمارا امریکہ سے نزدیک ہونا کسی بھی مشکل کو حل نہ کرےگا۔
ہمارا نظام ہمیشہ سے ہماری جانثار ملت کے فرد فرد کے کاندھوں پر مستحکم و استوار تھا اور رہےگا اور تمام سختیوں اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرےگا۔ اسی لئے استکبار، انقلاب اور اسلامی نظام کے عظیم کامیابیوں کو ختم نہیں کرسکتا۔
ہمیں چاہیئے کہ پورے وجود کے ساتھ اپنی اسلامی کامیابیوں اور نصب العین کا دفاع کریں اور اپنے اسلامی نظام کا تعارف، سب سے اعلی اسلامی نظام کے عنوان سے کریں۔ جد وجہد اور مجاہدات میں حائل ہونے والا ہر قسم کا رکاوٹ، نظام کے اقدار اور نصب العین کو خطر میں ڈال سکتا ہے۔ انقلاب اسلامی کے عظیم اور طاقتور موجوں کو پوری دنیا میں عام مسلمانوں کے کانوں تک پہنچانا چاہیئے۔
(حفظ و قرائت قرآن کے مقابلے کے پروگرام کے شرکاء کی ملاقات کے دوران ۳۱۔۴۔۱۳۶۹۔ دیدگاھھای سید احمد خمینی؛ ص۹۵)
جو لوگ اس بات سے خوش ہیں کہ ایران اور امریکہ کے ما بین روابط و تعلقات کا نئے سرے سے مطالعہ کرنا چاہیئے وہ باطل تفکر و سوچ کے حامل ہیں کیوںکہ امریکہ انقلاب اسلامی کا قسم خوردہ دشمن کے عنوان سے کبھی بھی انقلاب اسلامی کی کامیابیاں اور مقدس اہداف کے تحقق کو برداشت نہ کرےگا۔
(شہدا کے گھرانے اور مختلف لوگوں کی ملاقات میں ۲۹۔ ۷۔۱۳۶۹)
آج ہم پورے وجود کے ساتھ امریکہ کے سامنے کھڑے ہیں اور کسی کی بھی جرأت نہیں کہ وہ یورپ اور امریکہ کے قریب ہو۔ سیاسی نرمی اور لچک اس صورت میں مورد قبول ہے کہ سیاست کا رُخ اسلام کا انقلابی غضب اور طاقت ہو، ورنہ ایران کی عزیر عوام کسی بھی حکومتی مقام سے سازش اور جھکاو کو قبول نہ کرے گی۔ ہم آج بھی امریکہ اور برطانیہ کو اپنا قسم خوردہ دشمن جانتے ہیں۔
(سپاہ کے آزادہ شدہ قیدیوں کی ملاقات میں ۷۔۸۔۱۳۶۹)