کلیدی قومی مسائل اور پالیسیوں پر گفتگو

کلیدی قومی مسائل اور پالیسیوں پر گفتگو

اسلامی انقلاب کامیاب ہوتے ہیں مغربی حکومتوں نے مخالفت شروع کر دی، امام خمینی[رح] اور اسلامی انقلاب کے خلاف افواہیں پھیلائی گئيں۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں گزشتہ 26 فروری کو پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت اور ان کی جانب سے اسلامی نظام سے وفاداری کے اعلان کی قدردانی کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ دور میں ملک کی تین اہم ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے اغیار کی دراندازی کے مسئلے کو حد درجہ اہمیت کا حامل قرار دیا۔

رہبر معظم نے زور دیکر کہا کہ حقیقی پیشرفت کا واحد راستہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں ملک کے داخلی ڈھانچے کو مستحکم بنانا، انقلابی خصوصیات کی حفاظت، مجاہدانہ انداز میں کام، ملی و اسلامی تشخص و وقار کی حفاظت اور خطرناک عالمی ہاضمے میں خود کو ہضم ہونے سے بچانا ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اسلامی نظام میں انتخابات اور خاص طور پر 26 فروری کو ہونے والے انتخابات کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کا پوری آزادی کے ساتھ شرکت کرنا انتخابات کی ایک اہم خصوصیت ہے کیونکہ اسلامی نظام میں انتخابات میں شرکت اجباری نہیں ہے بلکہ عوام الناس اپنی رغبت اور خواہش کے مطابق فکر و تدبر کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ 26 فروری کے انتخابات میں عوام کی جانب سے اسلامی نظام سے وفاداری کا اعلان اسلامی نظام اور عوام کے درمیان خلیج ظاہر کرنے اور انتخابات کو غیر معتبر ثابت کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کے بالکل برعکس اقدام تھا۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے پہلے اسلامی جمہوری نظام میں ایک ستون کا درجہ رکھنے والی ماہرین اسمبلی کے نو منتخب ارکان کے فرائض پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ ماہرین اسمبلی کی ذمہ داری ہے؛ انقلابی بنے رہنا، انقلابی انداز میں سوچنا اور انقلابی انداز میں عمل کرنا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ملک کے آئندہ رہبر کے انتخاب میں بھی ان تینوں خصوصیات کو مد نظر رکھنا ماہرین اسمبلی کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ رہبر کے انتخاب میں ضروری ہے کہ ہر طرح کے تکلف، رواداری اور مصلحت کوشی کو کنارے رکھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات، ملک کی ضرورتوں اور عین حقیقت کو مد نظر رکھا جائے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حکومتی عہدیداروں کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں تین بنیادی فرائض اور ترجیحات پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ایک ہے مستحکم مزاحمتی معیشت، دوسرے ملک کی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھنا اور تیسرے ملکی ثقافت، قوم اور نوجوانوں کی حفاطت کرنا۔

آپ نے فرمایا کہ یہ طے پایا ہے کہ حکومت مزاحمتی معیشت کےلئے ایک مرکز قائم کرے اور اس مرکز کی ایک کمانڈ ہو، اس سلسلے میں کچھ اقدامات انجام پائے ہیں، لیکن اقدامات ایسے ہونے چاہئے کہ محسوس ہوں اور نظر آئیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکومتی عہدیداران مزاحمتی معیشت سے اپنی اقتصادی سرگرمیوں اور کوششوں کی نسبت واضح کریں اور ہر طرح کی اقتصادی منصوبہ بندی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں ہوں جو اجتماعی تدبر کے بعد تیار کی گئی ہیں اور اکثر اقتصادی ماہرین کا ان پر اجماع ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسری ترجیح یعنی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھے جانے کے تعلق سے فرمایا کہ اگر ہم دنیا میں طاقت، عزت اور مرکزیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و دانش کے شعبے کو تقویت پہنچانی ہوگی اور علمی پیشرفت کی رفتار قائم رکھنی ہوگی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حکومتی عہدیداران کی تیسری ترجیح یعنی ملک کو ثقافتی اعتبار سے تحفظ فراہم کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ثقافتی تحفظ کےلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہدف پر پورا یقین ہو اور اس کے بعد اس کےلئے منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ تینوں ترجیحات حکومتی عہدیداران کے ایجنڈے میں سنجیدگی کے ساتھ شامل کر لی جائیں تو اس کا نتیجہ ملک کی حقیقی پیشرفت کی صورت میں نکلےگا۔ 
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابی خصوصیات کی حفاظت، مجاہدانہ انداز میں عمل، ملی و اسلامی شناخت و وقار کی حفاظت اور دنیا کے خطرناک ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی ہاضمے میں خود کو ہضم ہو جانے سے بچانے کو ترقی کے اہم لوازمات میں شمار کیا اور دشمن کی دراندازی کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ صحیح اطلاعات کے مطابق امریکا اور استکباری محاذ کا منصوبہ ملک میں اپنی جڑیں پھیلانا ہے، تاہم اس کےلئے بغاوت کا منصوبہ نہیں ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ڈھانچے کے اندر اس طرح کی سازش کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے، بنابریں دوسرے راستوں سے دراندازی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام اور حکام پر حملے کرنا دشمن کی دراندازی کے دو بنیادی ہدف ہیں اور حکام کی سطح پر دراندازی کا مقصد ملک کے حکام کے اندازوں اور تخمینوں کو بدلنا ہے جس کے نتیجے حکام کی فکر اور قوت ارادی دشمن کی مٹھی میں چلی جاتی ہے اور ایسی حالت میں دشمن کو براہ راست مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ عہدیدار نادانستہ طور پر وہی فیصلہ کرتا ہے جو دشمن کو پسند ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دراندازی کی دوسری سطح میں عوام کے نظریات اور افکار اور اسلام و انقلاب سے ان کے لگاؤ، ان کی اسلام شناسی اور عمومی احساس ذمہ داری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کی خود مختاری کی نفی بھی دشمن کا اہم ہدف ہے اور ملک کے اندر بھی بعض لوگ سادہ لوحی کی بنیاد پر وہی بات دہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خود مختاری کا نظریہ پرانا ہو چکا ہے، آج اس کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دشمن کی ایک سازش یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں سے مغرب کی خیانتوں کی یادیں مٹا دی جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ عالمی پروپیگنڈے میں یہ بات مشتہر کی جاتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس ملک کے حکام مغرب اور امریکا کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہمیں مغرب سے نقصان پہنچا ہے، ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مغرب نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے، میں مغرب سے روابط منقطع کر لئے جانے کا طرفدار نہیں ہوں، لیکن ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم کن لوگوں سے لین دین کر رہے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زراعت کی نابودی، علمی پیشرفت کے سد باب، اچھے دماغوں کے اغوا، ملک کے نوجوانوں کو بدعنوانی اور نشے کی جانب گھسیٹنے کو پہلوی دور حکومت میں مغرب کے زیر نگرانی تیارے ہونے والی سازشیں قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوتے ہیں مغربی حکومتوں نے مخالفت شروع کر دی، سرحدی علاقوں میں انقلاب مخالف عناصر کو پیسہ، اسلحہ اور سیاسی مدد دی گئی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی انقلاب اور انقلابی عہدیداروں کے خلاف افواہیں پھیلائی گئيں، معاندانہ کارروائیاں کی گئیں اور جنگ میں بھی جہاں تک ممکن تھا مغرب نے صدام کی فوجی، سیاسی اور انٹیلیجنس مدد کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے بعض عہدیداران کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ ہمیں ساری دنیا سے تعاون کرنا چاہئے، آپ نے فرمایا کہ امریکا اور صیہونی حکومت کو چھوڑ کر ساری دنیا سے ہمارا رابطہ ہونا چاہئے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بس مغرب اور یورپ تک محدود نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ بیرونی تسلط کے سد باب کا طریقہ ملک کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر ایران اندر سے مستحکم اور بے نیاز ہو تو وہی لوگ جو آج دھمکیاں دے رہے ہیں، اسلامی نظام سے روابط قائم کرنے کےلئے صف بستہ کھڑے دکھائی دیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت کی مناسبت سے تعزیت پیش کی اور کہا کہ اس عظیم ہستی کے مناقب بیان کرتے وقت توجہ رکھی جانی چاہئے کہ اختلاف پیدا کرنے والے مسائل نہ اٹھائے جائیں، کیونکہ آج استکباری محاذ کی شیطانی پالیسی شیعہ سنی اختلاف کی آگ بھڑکانے پر مرکوز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس وقت علاقے میں جاری جنگوں کے صرف اور صرف سیاسی محرکات ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ ان اختلافات کو مذہبی اور مسلکی تنازعے کا رنگ دیں تاکہ انھیں آسانی سے ختم نہ کیا جا سکے، چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اس خطرناک سازش میں مددگار واقع نہ ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حرم اہل بیت اطہار علیہم السلام کی حفاظت میں برادران اہلسنت کی شرکت، ان کی شہادت اور پھر ان کے اہل خانہ کی جانب سے اس پر افتخار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علمائے کرام اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اہل سنت کو ناراض کرکے امریکیوں اور صیہونیوں کی تفرقہ انگیز سازشوں کی تکمیل کی جائے۔ 


ماخذ: http://urdu.khamenei.ir/ تلخیص کے ساتھ

ای میل کریں