مقدمہ
اس تاریک اور ظلمتوں سے بھری ہوئی روزگار میں جہاں اللہ تعالٰی کے وصال اور لقاء تک پہنچنانے والے سلوکی تعلیمات اور دستور العمل خود اپنی جگہ رہزن ہونے کے ساتھ، دیر پا اور زیادہ موثر نہیں ہوتے۔ چنانچہ امام خمینی(رح) نے عرفانی سلوک (راہ) کو اللہ تعالٰی کےلئے قیام اور اللہ کی مدد سے اپنے نفس کے گھر سے آغاز کیا اور پوری توفیق سے چار سفروں (اسفار اربعہ) کو طے کیا اور [يا ايتها النفس المطمئنۃ ارجعى الى ربك راضيۃ مرضيۃ] کے خطاب کا آرام و اطمینان سے بھرے ہوئے دل سے جواب دیا اور فرمایا: راہ طے کرنے والوں (سالکین) کےلئے سب سے بہترین اور مطمئن ترین صراط دوست و یار کے گھر کی طرف جانے والی راستہ ہے۔
اب، نجات کی اُمید اور صراط مستقیم کے ائمہ ہدیٰ (ع) سے توسل کے ساتھ، اللہ تعالٰی کےلئے قیام اور اپنے ہویٰ و ہوس سے کٹ جانے اور دور پھینکنے کی ہمت کرتے ہیں اور اپنی جان کو اللہ تعالٰی کی ذات کے نورانی کلمات کے زمزمے سے پاک و پاکیزہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی مدد اور کرم و عنایت سے۔
بانگ بیداری، صلاى رحيل بلند ہے/۱
اے غافل دل! نیند سے اُٹھ جا اور آخرت کے سفر کےلئے تیار ہوجاو کہ حضرت عزرائیل کے ملازمین، کام میں مشغول ہیں اور تجھے عالم آخرت کی طرف چلائیں گے۔
اے اللہ! میں تیری بارگاہ سے چاہتا ہوں کہ مجھے غرور اور مستی کے گھر سے، سرور و خوشی کے گھر لوٹنے کی تیاری، فرصت ختم ہونے سے پہلے عنایت فرما۔/۲
به درآى تا ببينى طيران آدميت
اے عزیز! اس کے باوجود کہ یہ عالم دار جزا نہیں اور ذاتِ حق کی سلطنت بالکل عیاں و ظاہر ہونے کی جگہ نہیں اور دنیا مومن کےلئے قید خانہ ہے، اگر تم نے خود کو نفس کی قید سے آزاد کیا اور اللہ کی عبودیت میں گردن جھکا دیا اور دل کو موحّد بنایا اور دو بینی اور دو دلی کے میل کچل کو روح کے آیینہ سے دور کیا اور قلب کو کمال مطلق کی طرف متوجہ کیا، تو اسی عالم میں، اس کے آثار کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو گے۔ اس نسخہ پر پورا عمل کرو تاکہ روح ِآدمی کے پرواز سے تمہارے قلب میں ایسی وسعت پیدا ہو کہ اللہ تعالی کی پوری سلطنت کا ظہور ہو جو تمام عوالم کی وسعت سے کئی گنا زیادہ ہے۔/۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱- فصلوں کے عناوین ہر فصل کے محتوی اور مفہوم پر منظم کیا گیا ہے۔
۲- اربعين حديث۔
۳- نهج البلاغه، خطبه۲۵۱۔