چالیس سال پہلے موسم گرما میں، ہم معصومہ قم میں قیام پذیر تھے۔
اس دوران پانی کم تھا، پنکھے اور ایئر کنڈیشنر بھی دستیاب نہیں تھا، گرمی بہت تھی۔
رمضان المبارک کا مہینے بھی سخت گرمی میں آغاز ہوا۔ میری بڑی بہن، ضعیف اور کم زور تھی لیکن نو سالہ ہوچکی تھی اور اس پر مبارک ماہ کا روزہ واجب ہوچکا تھا۔
بہن نے پہلا دن کا روزہ رکھ کر افطار کے بعد آغا سے کہا: کل میں روزہ نہیں رکھوں گی!
بلافاصلہ آغا نے ایک کو بلایا اور فرمایا: آج رات کو انہیں تہران پہنچاؤ!
بعد میں آغا نے فرمایا تھا: میں نے دیکھا کہ یہ بچہ روزہ نہیں رکھ سکتی اور روزہ کھا لےگی اور اس طرح روزہ کی اہمیت اس کی نظروں سے گرجائےگی لہذا اسے تہران جانے کو کہا کہ اگر کسی دن اسے کہہ دوں کہ روزہ رکھو، وہ اس پر عمل کرے نہ کہ ہاں کہہ کر روزہ کھا لے۔