جان لیں کہ اسلام کے اس تاریخی واقعہ کو زندہ رکھنے کے لئے ائمہ علیہم السلام کا جو دستور ہے اور اہل بیت (ع) پر ظلم کرنے والوں پر لعنت اور نفرت کی بارش،تاریخ کے ہردور میں ظلم وستم کے خوگر سربراہوں کے سر پرقوں کی جراتمندانہ فریاد ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بنی امیہ لعنۃ اللہ علیہم پر لعنت و نفرت اور ان کی بیدادگری کے خلاف فریاد، اس کے باوجود کہ وہ جہنم واصل ہوگئے ہیں۔ دنیا کے ستمگروں کے خلاف فریاد اور اس ستم شکن فریاد کو زندہ رکھنا ہے ۔ (صحیفہ نور:ج۲۱،ص ۱۷۳۹)
شہید پر رونا،تحریک کی حفاظت کرنا اور اسے زندہ رکھنا ہے۔ یہ روایت کہ جو شخص روئے،رلائے یارونے والےجیسی صورت بنائے وہ جنت میں جائے گا۔ یہ اس لئے ہے کہ حتی وہ شخص جو خود دکھی اور رنجیدہ ظاہر کرتاہے اور رونے والے جیسی صورت بناتا ہے وہ امام حسین (ع) کی اس تحریک کی حفاظت کرتا ہے ۔(صحیفہ نور: ج۱۰ص۳۱)
مجالس و اجتماعات میں گریہ کا محرک یہ نہیں ہے کہ ہم حضرت سید الشہدأ (ع) پر گریہ کریں سید الشہدا (ع) کو اس گریہ کی ضرورت نہیں ہے اور نہ فقط گریہ سے کوئی کام نکلتاہے ۔ لیکن یہ مجلسیں لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔ تین ساڑھے تین کروڑ لوگ محرم و صفر میں خاص کر روز عاشورا اکٹھا ہوتے ہیں اورایک ہی رخ پر چل پڑتے ہیں ۔ بعض ائمہ (ع) نے بلا وجہ نہیں فرمایا کہ منبر ہر میر ے مصائب بیان کیئے جائیں ۔
بات صرف گریہ کی نہیں ہے اور گریہ دار جیسی صورت بنانے کی نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ سیاست ہے ہمار ے ائمہ (ع) اپنی خداداد بصیرت کے پیش نظر یہ چاہتے تھے کہ ان قوموں کو یکجا اور متحد کردیں تاکہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے (صحیفہ نور:ج۱۳،س۱۵۳)