دین اسلام کہ جس کی سند قرآن ہے اور محفوظ بھی ہے۔ یہاں تک کہ ایک لفظ کی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ ایسا ہے کہ قرآن ہر چیز پر مشتمل ہے۔ یعنی قرآن ایک انسان ساز کتاب ہے۔ جس طرح سے انسان میں سب کچھ ہے: انسان معنویت رکھتا ہے، مادیت رکھتا ہے۔ ظاہر اور باطن رکھتا ہے ۔ قرآن کریم کہ جو اس انسان کی تعمیر کے لئے آیا ہے انسان کی ہرپہلو سے تعمیر کرتا ہے ۔ یعنی قرآن اس کی تمام احتیاجات کو پوری کرنے آیا ہے چاہے وہ احتیاجات ہوں جو ذاتی ہیں ، خود اس کے ذات سے مربوط ہیں یا وہ اور اس کے خالق یکتا کے در میان ہیں اور توحید کے مسائل ہوں یا خداوند عالم کی صفات یا قیامت کا مسئلہ ہو ان سب میں قرآن ہدایت دیتا ہے۔ چاہے سیاسی اور سماجی معاملات ہوں اور کفار وغیرہ سے جنگ کا معاملہ ہو۔ قرآن مجید ایسی آیات سے بھرا ہوا ہے کہ جن میں بندوں کو، رسول اکرؐم کو باغیوں اور غاصبوں سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، ظالموں سے جنگ کریں ۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس نے حرکت بخشی ہے۔ یعنی وہ عرب جو اس وقت کہ جس دور میں قرآن نازل ہوا ایک دوسرے سے جدا تھے، ایسے لوگ تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ بھی ٹھیک نہیں تھے۔ ان کے درمیان میں جنگ و جدال تھی ۔ ان کو سیاسی امور کی کوئی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔ وہ آپس میں بھی جنگلی اور وحشی قبیلوں کی طرح رہتے تھے۔ انہی عرب نے کہ جن کو رسول اکرؐم نے سدھا را آغاز اسلام کے بعد نیم صدی سے پہلے یعنی تقریبا تیس سال کے عرصے میں ان بادشاہی سلطنتوں کو فتح کرلیا۔تھوڑے عرصے میں ان دو بادشاہوں کو کہ جن کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا تھا مغلوب بنادیا۔ ایک ایران کی شاہی سلطنت اور ایک روم کی۔ دونوں کو ان عربوں نے فتح کرلیا ۔ اسلام و قرآن نے ان کے اندر ایک ایسا انقلاب برپا کیا تھا کہ وہ جزیرہ عرب سے چل پڑے اور ایران کو اپنا ماتحت بنالیا ۔ روم پر قبضہ جمالیا۔ یہاں تک کہ یورپ کو بھی قبضے میں لے لیا۔ غرض ہر جگہ کو مسخر کرلیا۔ ان کی یہ تسخیر فرض کیجیے کہ ناپلئون کی طرح نہیں تھی کہ صرف ایک ملک کو فتح کرے۔ اسلامی فتوحات اس لئے تھیں کہ لوگوں کی تربیت کریں ۔ لوگوں کو کلمۂ توحید سکھائیں ، ان کو عدل وانصاف کادرس دیں ۔ لوگوں کو حقایق سے باخبر کریں ۔ یہ تھیں اسلامی فتوحات۔ صرف کشورگشائی نہیں تھی۔ نہیں کشورگشائی کا مسئلہ نہیں تھا۔ بات یہ تھی انسانوں کو صحیح راستے پر لے آئیں ۔ یعنی جنگلیوں کو تہذیب سکھائیں ۔ یعنی ان لوگوں کو تہذیب سکھائیں جو ایک دوسرے کا خون چوستے تھے۔ قرآن مجید نے آدھی صدی میں ایسے لوگوں میں ایک عادلانہ معاشرہ قائم کیا جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے۔ قرآن نے ان کو اتنا متمدن و مہذب بنادیا کہ وہ ایک دوسرے سے ایسا سلوک کرنے لگے جیسا کہ تمدن والے ملک کیا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔
صحیفہ امام ،ج۴ ، ص ۴۴۸۔ ۴۴۹