میں گیارہ سال تک نجف اشرف میں امام کی خدمت میں رہا کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ بڑے بڑے سیاسی واقعات اور حوادث امام کے تعلیمی ٹائم ٹیبل یعنی فقہ کی تدریس میں آڑے آئے ہوں یا ان کے درس وتدریس کے ذوق وشوق میں کسی طرح کی سستی کا باعث بنے ہوں ۔ میں اور امام کے بہت سارے شاگرد، ان سیاسی حالات اور واقعات کی وجہ سے کئی بار یا تو درس میں بالکل شریک نہیں ہو پاتے یا پریشانی اور سستی کے ساتھ درس میں شرکت کرتے تھے۔ لیکن امام اس بحرانی حالات میں بھی باوجود اس کے کہ وہ واقعات آپ کی زندگی کے بہت بڑے سیاسی مسائل تھے۔ لیکن ان حالات میں بھی امام جب درس کی کرسی پر بیٹھتے تھے تو فقہی مسائل کا ایسا تجزیہ کرتے تھے کہ گویا ان کے سامنے کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا ہے۔ جس دن آپ کا عزیز بیٹا سید مصطفی بعثی حکومت کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور اس کو بغداد منتقل کردیا گیا اس دن بھی آپ کے درسی ٹائم ٹیبل میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے دنوں کی نسبت اس دن کچھ زیادہ گہرائی اور وسعت سے مختلف علمی موضوعات پر گفتگو کی، نیز سید مصطفی کی شہادت پر جب حوزہ علمیہ کے زعماء اور علماء نے چھٹی کی تو امام خمینی ؒ نے اعتراض کیا اور کہا درس کی چھٹی اور حوزہ علمیہ کی علمی رفتار میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ لہذا علماء کو چاہیے کہ دروس کا سلسلہ جاری رکھیں اور خود بھی درس وبحث کو جاری رکھا اور ایک علمی گفتگو کی کہ { کأنْ لم یکن شیئاً مذکوراً }۔