مجلس سید الشہدا ؑ ان کے مکتب کی حفاظت کیلئے ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصائب نہ پڑھئے وہ بالکل نہیں سمجھتے کہ مکتب سید الشہدا ؑ کیا تھا اور انہیں معلوم نہیں کہ ان مصائب اور اس رونے سے اس مکتب کو بچایا ہے۔ اس وقت چودہ سوسال ہوگئے ہیں کہ ان تقریروں، مجلسوں، ذکر مصائب اور سینہ زنی کے ذریعہ ہمیں بچایا ہے اور اسلام کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں اس دور کی بات کہنا چاہیے، یہ بدنیتی کی بناپر ہیں کہتے، انہیں معلوم نہیں کہ سید الشہدا ؑ کی بات ہر دور کی بات ہے۔ ہمیشہ ہر دور کی بات ہے۔ اصلاً ہر دور کی بات کرنا سید الشہدا ؑ نے ہمیں سکھایا ہے اور سید الشہدا ؑ کو اس گریہ نے زندہ رکھا ہے۔ ان کے مکتب کو ان کے مصائب، فریاد، نوحہ وماتم اور ان ماتمی دستوں نے بچائے رکھا ہے۔ اگر صرف خشک مقدسی ہوتی گھر میں بیٹھ جائے اور زیارت عاشورا اور تسبیح پڑھتے رہتے تو کچھ بھی باقی نہ رہتا۔ شور کی ضرورت ہے۔ ہر مکتب کیلئے شور ضروری ہیں ۔ اس کیلئے سینہ زنی ہونا چاہیے۔ جس مکتب کیلئے سینہ زنی نہ ہو، گریہ نہ ہو، سر وصورت نہ پیٹیں وہ مکتب زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ اشتباہ کررہے ہیں ۔ یہ ابھی بچے ہیں ۔ انہیں معلوم نہیں کہ اسلام میں علما اور اہل منبر کا کیا کردار ہے۔
شاید آپ کو بھی زیادہ معلوم نہیں ہے۔ یہ ایسا کردار ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ یہ ایسا پھول ہے جس کو ہر وقت پانی کی ضرورت ہے۔ اس گریہ نے مکتب سید الشہدا ؑ کو زندہ رکھا ہے۔ مصائب کے یہ تذکرے ہیں جنہوں نے مکتب سید الشہدا ؑ کو زندہ رکھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ایک شہید کیلئے جو ہم سے جدا ہوتا ہے علم اٹھائیں ، نوحہ خوانی کریں ، روئیں اور فریاد کریں ۔ دوسروں کا جب ایک آدمی قتل ہوجاتا ہے تو وہ ایسا کرتے ہیں اس کیلئے فریاد بلند کرتے ہیں ۔ فرض کیجئے کہ کسی پارٹی کا اگر کوئی آدمی قتل ہوجائے تو وہ اس کیلئے جلسے اور میٹنگیں کرتے ہیں ۔ سید الشہدا ؑ کے مکتب کو زندہ رکھنے کیلئے یہ بھی ایک طرح کی میٹنگ اور فریاد ہے لیکن یہ لوگ متوجہ نہیں ہیں ۔
یہ لوگ مسائل کو درک نہیں کرپاتے۔ اسی گریہ اور نوحہ سرائی نے اس مکتب کو اب تک زندہ رکھا ہے اور یہی چیز ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔ اسی چیز نے اس نہضت کو آگے بڑایا ہے۔ اگر سید الشہدا ؑ نہ ہوتے تو یہ تحریک بھی آگے نہ بڑھتی۔ سید الشہدا ؑ ہر جگہ ہیں {کل أرض کربلا} ہر جگہ محضر سید الشہدا ؑ ہے۔تمام منبر سید الشہدا ؑ کے محضر میں ہیں، تمام محراب سید الشہدا ؑ کی وجہ سے ہیں ۔ امام حسین ؑ نے اسلام کو نجات دلا دی۔ جس ذات نے قتل ہو کر اسلام کو نجات دلائی، ہم اس کیلئے کچھ نہ کہیں اور خاموش رہیں ، ہمیں ہر روز رونا چاہیے اور اس مکتب کی حفاظت کی خاطر ہر روز تقریر کرنا چاہیے۔ ان تحریکوں کو بچانے کی خاطر جو امام حسین ؑ کی مرہون منت ہیں ۔
(صحیفہ امام، ج ۸، ص ۵۲۷)