یہ جو روایت میں آیا ہے کہ جو شخص روئے یا رولائے، یا رونے کی صورت بنائے، اس کی جزا جنت ہے، یہ اس لئے ہے کہ جو شخص ایک لمحے کے لئے بھی رونے کی صورت لیتا ہے یقیناً حزن و غم کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور یہی چیز تحریک کو بچاتی ہے؛ یہی امام حسین(ع) کی تحریک کی حفاظت کرتی ہے۔ ہماری قوم نے ان مجالس کو باقی رکھا ہے۔
رضاخان کے دور میں ان مجالس پر پابندی تھی، چنانچہ ایران میں تمام مجالس قدغن ہوگئ، حکومت نے اپنی تمام سعی کی۔ اہل منبر، علماء پر سخت پابندیاں عائد کی اور انھیں دینی تبلیغات سے روکا؛ اور دوسروں نے دوسری سمت سے تبلیغات کا آغاز کیا اور ہمیں پیچھے ڈھکیل دیا اور ہمارے تمام ذخائر کو پورا لوٹ لیا۔ محمد رضا کے دور میں بھی ایسا ہی تھا، لیکن دوسری شکل میں ۔ ۔ ۔ اب ایک گروہ کہتا ہے کہ بس، اب اور مجلس نہ پڑھیں! یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ مجلس اور مصیبت پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ لوگ عزاداری کی ماہیت و ڈانچے کو درک نہیں کرتے؟ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہ امام حسین (ع) کی تحریک ہی ہے جو یہاں تک پہنچی ہے اور اس نے ہماری اس تحریک کو زندہ کیا ہے۔
امام حسین (ع) کا کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا؛ وَ کُلُّ أَرْضٍ کَرْبَلاء کا دستور، سب کے لئے ایک ابدی دستور ہے یعنی ہردن اور ہر جگہ اسی تحریک کو آگے بڑھنا چاہیئے، یہی ہمارا نصب العین ہے۔
صحیفه امام؛ ج 10، ص 26
ماخذ: جماران خبررساں ایجنسی