جماران کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حجاج کے ایک سالار کارواں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، منی کے افسوسناک سانحہ کے متعلق آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا: سعودی حکومت کی جانب سے حجاج کرام کی رہائشـگاہوں پر گرمی سے بچنے کیلئے کولنگ سسٹم نہ ہونے کے ساتھ ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے سرے سے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا!! اور سانحہ منی سے چند گھنٹے قبل گرمی کی شدت اور پینے کے پانی کی عدم فراہمی سے بہت سے حجاج، عرفات کے میدان میں گرمی ہی نڈھال ہوگئے تھے اور انہیں دوسرے حاجیوں کی مدد سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اور اس وقت سعودی حکومت کی جانب سے حاجیوں کی مدد کیلئے نہ تو کوئی ایمبولینس نظر آرہی تھی اور نہ ہی اسسٹنس فورس!!
اس عینی شاہد کا کہنا ہے: رمی جمرات جانے والے راستے میں ہر 50 میٹر کے فاصلے پر کیمرے نصب تھے اور ان کیمروں کے ذریعے سعودی اہلکار، پوری طرح حاجیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کررہے تھے اور نگرانی کے اعلی نظام کے باوجود سانحہ منی میں سعودی اہلـکاروں کی ناکامی ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
شاید سعودی اہلکار اس حادثے سے لوگوں کو بچانا نہیں چاہتے تھے؟!
آخر کیوں تین گھنٹے کی تاخیر سے سانحہ منی کے مقام پر پہنچے؟!
کیا سعودی اہلکار موسم کے حالات سے آگاہ نہ تھے یا اس سلسلے میں کوئی پیشن گوئی نہیں ہوئی تھی؟!
اس عینی شاہد کے بقول سانحہ منی میں بہت سے حاجیوں کی جان بچائی جاسکتی تھی مگر سعودی اہلکاروں کی جانب سے ایسی کوشش عمل نہیں آئی جس سے حاجیوں کو بچایا جاسکے اور فقط یہی نہیں بلکہ جو لوگ، حاجیوں کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھنا چاہتے تھے، وہ انہیں بھی روکتے تھے!!
سعودی حکام کا اعتراف
العروج ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عربکے وزارت صحت سے منسوب ایک بیان سامنے آیا ہے جس کی روشنی میں سانحہ منی میں جان بحق ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات ہزار چارسو ستتر ہے!! یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ اس پہلے سعودی حکام نے میڈیا پر بیان کئے جانے والے تمام اعداد و شمار کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا میں مرنے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے!! نیز، آل سعود نے منی میں پیش آنے والے سانحہ میں حجاج کرام کو قصور وار قرار دیتے ہوئے انہیں مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
1987 کے حج کے موقع پر امام خمینی کا پیغام
موجودہ دور میں خانہ کعبہ کی چابی رکھنے والے سعودی اہلکار اس بات کی اہلیت نہیں رکھتے کہ اللہ کے گھر کی زیارت سے مشرف ہونے والے زائرین کی میزبانی کرسکیں۔۔۔
اس سے بہتر تعبیر نہیں ملتی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے آل سعود کی وہابی حکومت کی مثال اس خنجر کی مانند ہے جو پیٹھ پیچھے سے مسلمانوں کے قلب پر گھونپا گیا ہو۔