وہ خبرنگار کہ جن کا مطمع نظر حقائق کا انکشاف ہوتا تھا اور جو چاہتے تھے کہ امام ؒکے نظریات سے ٹھیک طرح سے آگاہ ہوجائیں وہ کسی بھی صورت میں امام کے ساتھ رہنے والوں سے انٹرویو کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان حضرات کی باتیں رپوٹ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی لیے کہ ان کی باتیں نہ تو امام کے سیاسی واجتماعی موقف اور نظریات کا ترجمان ہوتیں اور نہ ہی ملت ایران کی سیاسی واجتماعی سرگرمیوں کی ترجمانی کرسکتی تھیں ، کیونکہ امام کا موقف صرف انہی کے توسط بیان ہوسکتا تھا اور ایران کے اندر عوامی تحرکات بھی امام خمینی ؒہی کے حکم کے تحت ہوتے تھے۔کسی اور شخص یا گروپ کے ذریعے نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ نامہ نگار کوشش کرتے تھے کہ یا امام سے انٹرویو لیں یا مختلف موقعوں پر ہونے والی تقاریر مثلاً ۹ محرم اور عاشورا وغیرہ سے ان کے موقف اور ان کی سیاست سے آگاہ ہوں یا ان کے پیغام اور خطوط سے امام کے نظریے کو سمجھ لیں جو آپ ایرانی عوام یا بعض علماء کو لکھتے تھے۔ ان امور کے ذریعہ امام کے آیندہ پروگرام سے آگاہ ہوجائیں ۔ اسی بنا پر وہ بار بار امام سے انٹرویو کا تقاضا کرتے تھے اور امام کا کافی سارا وقت اسی میں نکل جاتا تھا۔ امام کی یہی باریک بینی موجب بنتی تھی کہ سارے انٹر نیشنل ماہر خبرنگار جو ذرّے کو پہاڑ بناتے ہیں وہ امام کے کام اور انقلاب اسلامی کے بارے میں ذرا سی غلط بیانی نہ کرسکے اور امام کی اس انقلابی تحریک میں ذرہ برابر بھی غلط فائدہ نہیں اٹھا سکے کہ جس سے امام کی جد وجہد کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے۔ اگر کہیں گوشہ وکنارے میں کوئی بات غلط انداز سے پیش کی جاتی تو فوراً امام ؒکو خبر دی جاتی اور امام ایک بیانیہ یا تقریر یا بعد میں کسی انٹرویو کے وقت اس کی تردید کرتے تھے۔ بہرحال ایک جملے میں واضح کہہ دوں کہ امام نے ان دنوں کسی کو بھی سوء استفادہ کی اجازت ومہلت نہیں دی۔