امام کی مجاہدانہ روش، عوام کے محور پر استوار ہے جو ڈیموکریسی کی طرفدار دنیا میں سیاسی نظام کی تبدیلی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اگر چہ ملتوں اور معاشروں کے محروم و کمزور طبقہ کو ابتداء ہی سے امام کی نظر میں بلند مقام حاصل تھا؛ کیونکہ امام کی نظر عوام اور لوگوں پر ایک وقتی اور ہتھیار کے طور پر نہ تھی، بلکہ واقعی اور با مقصد تھی۔ اس سلسلے میں امام کی جانب سے متعدد عملی اقدامات بیان ہوئے ہیں جن میں سے ذیل کے کچھ موارد کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے :
ملتوں کی جانب سے سیاسی جنگ کا آغاز آزادی خواہ مسلمانوں کی عملی کوششوں کو منسجم اور زیادہ سے زیادہ سرگرم بنانے کے لئے، ملتوں کے جائز مطالبات کو نہ ماننے کی صورت میں قہر آمیز جنگ کا سہارا، اس بحران زدہ دنیا میں ایک منظم عوامی طاقت کے عنوان سے حزب مستضعفین یا حزب اللہ کی تشکیل کا منصوبہ، دنیا میں آزاد اور مستقل جمہوریوں کی تأسیس اور آخر میں وحدت غائی کے عنوان سے کمزور ملتوں کے عدالت جویانہ اور آزادی خواہانہ مطالبات کے لئے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل۔
’’اے مستضعفین عالم اور اے اسلامی ممالک اور مسلمانان عالم قیام کرو اور حق کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو ؛ اور سپر طاقتوں اور ان کٹھ پتلی حکمرانوں کی تبلیغاتی شور و غل سے نہ ڈرو؛ مجرمحکام جو تمھاری محنت کی کمائی کو تمھارے اور اسلام کے دشمنوں کے حوالے کرتے ہیں ان کو اپنے ملک سے نکال دو؛ اور آپ خدمتگزار طبقہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لے لے اور سب اسلام کے پر افتخار پرچم کے نیچے جمع ہوں اور اسلام اور محرومین کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور ان کا منھ توڑ جواب دیں؛ اور ایک اسلامی حکومت یا مستقل اور آزاد جمہوریوں کی طرف آگے بڑھو کہ اس کے تحقق سے تمام مستکبرین عالم کو ان کے کیفر کردار تک پہونچائوگے اور تمام مستضعفوں کو زمین امامت و وراثت تک پہونچائوگے۔ اس دن کی امید کے ساتھ جس دن کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے۔ ‘‘ (صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۴۴۹)