مذہب کی شکست ناقابل جبران شکست

مذہب کی شکست ناقابل جبران شکست

مجھے اس بات کا خوف لاحق ہے کہ ہمیں کبھی ایک بڑی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے

مجھے اس بات کا خوف لاحق ہے کہ ہمیں کبھی ایک بڑی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ اور وہ شکست ہمارے مکتب اور مذہب کی شکست ہے مجھے اس سے بہت ڈر لگتا  ہے۔ ہمارا اگر مذہب محفوظ رہے دین محفوظ رہے اور ہم شکست کھا جائیں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہت سارے اولیاء اللہ نے حکمرانوں کے  مقابلہ میں شکست کھائی لیکن ان کا دین محفوظ رہا۔ اگر خدا نخواستہ ہم کامیاب ہو جائیں اس معنی میں کہ ظلم کی وہ پارٹیاں جن کو باہر کیا ان کی جگہ خود بیٹھ جائیں اور ایک دوسرے ڈھنگ اور طرز سے انہیں کاموں کو نئے سرے سے شروع کردیں اور تاریخ کو دھرائیں یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ جو ہمارے دین کا نقشہ دنیا میں منعکس ہوگا وہ واقعی دین نہیں ہوگا۔ یہ دین کی شکست کا سبب بنے گا۔ ایسی شکست کہ جس کا جبران کرنا ناممکن ہے۔ یہ دین کی شکست ہے کہ دین کے نام پر خلاف ورزیاں اور بدکاریاں کی جائیں۔

 

آج میں پورے ایران کی فضا میں یہ چیز محسوس کر رہا ہوں کہ کچھ چہ مہ گوئیاں چل رہی ہیں کچھ اختلافات وجود پا رہے ہیں یہ ایسے کام ہیں جو نہیں ہونا چاہیے۔ وہ چیزیں جو مرضی خدا کے برخلاف ہیں جو پیغمبر اکرم [ص] کے دستورات کے خلاف ہیں اسلام کے خلاف ہیں پورے ملک کی فضا میں پھیل جائیں۔ نہ یہ کہ سب لوگ اس میں ملوس ہیں بلکہ کچھ اس قسم کے افراد ملک میں پائے جاتے ہیں۔ خوف اس بات کا ہے کہ یہ چیزیں بھی اسلام کے کھاتے ہیں ثبت ہو جائیں۔ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں لکھی جائیں۔ اور باہر کے لوگ کہیں، یہ ہے اسلامی حکومت اور یہ ہے اسلامی نظام۔ پہلے ہی کی طرح ہے نئے چہروں کے ساتھ۔ جیسے سابقہ نظام میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے اور کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا سوائے قاعدہ ظلم و جبر کے۔ اب بھی بعض جگہوں میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور پوچھ تاچھ کرتے ہیں اور یہ چیز اسلام کے کھاتے میں پڑ جائے۔ اگر خود ہمارے کھاتے میں پڑے تو ٹھیک ہے انصاف ہے ۔ لیکن وہ جو اس ملک میں رہ کر خلاف کاریاں کرتے ہیں اور سابقہ نظام کی طرح کام انجام دیتے ہیں۔ سابقہ نظام کے کارناموں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ طاغوتی نظام تھا اس کا کوئی کام اسلام کے کھاتے ہیں نہیں پڑتا تھا ہمارا مذہب محفوظ تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اب اگر خدا نخواستہ حکومت کے کارندوں میں سے، روحانی طبقہ میں سے جو روحانی لباس میں ملبس ہیں جو اسلام کے نمائندہ ہیں اگر خدا نخواستہ کوئی ایسا ویسا کام انجام دیتے ہیں اور وہ کام شرعی حدود سے باہر ہے اسے طاغوتی حکومت کے کھاتے ہیں حساب نہیں کریں گے، یہاں کہیں گے یہ اسلامی حکومت ہے اور یہ اس کے کارنامے ہیں۔۔۔

 

     صحيفه امام، ج‏8، ص: 273

ای میل کریں