جب بری فوج کی طرف سے خط آیا کہ میری مغربی محاذ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ تو میں نے جواب میں کہا: مجھے دفاع کی شورائے عالی نے بھیجا ہے۔ انہی کے حکم پر تہران واپس جاؤں گا۔ نہ کہ بنی صدر کے حکم سے اور جب تک دفاع کی شورائے عالیہ حکم نہ دیتی اس وقت تک میں یہیں رہوں گا۔ میں اس جانب متوجہ بھی نہیں تھا کہ میرا یہ جواب عسکری اعتبار سے ایک قسم کی نافرمانی ہے۔ بنی صدر میرا یہ جواب امام کی خدمت میں پیش کر چکا تھا اور امام چونکہ مجھے نہیں پہچانتے تھے اس لیے انہوں نے بنی صدر سے کہہ دیا تھا: ’’اس کے ساتھ مطابق قانون عمل کرو۔ اس لیے جب ائمہ جمعہ محترم منجملہ ان میں شہدائے محراب بھی تھے جب امام کی خدمت میں مشرف ہوئے اس وقت انہوں نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں شخص ایک محنتی اور با استعداد شخص ہے اور بنی صدر نے اس کو معزول کردیا ہے۔ باوجودیکہ یہ افراد امام کے نزدیک پہچانے ہوئے چہرے اور باعزت تھے۔ امام نے بالکل ہی اٹل انداز میں کہا: فلاں نے نافرمانی کی ہے۔ البتہ یہ اس معنی میں نہیں تھا کہ امام نے ان کی بات قبول نہ کی ہو۔ لیکن امام قانون کی تابعداری اور پابندی کو ضروری سمجھتے تھے۔