میں ایرانی عوام اور اپنے قمی ہموطنوں کی محبتوں کا صمیم قلب سے شکرگزار ہوں ۔ ۔ ۔
مندرجہ بالا جملہ 14 سال، جلا وطنی گزارنے کے بعد، امام خمینی(رح) نے شہر مقدس قم کے مدرسہ فیضیہ میں 10/12/1357هـ، شمسی (1مارچ 1979ء) کو اہل قم کے درمیان بیان فرمایا۔ مذکورہ جملہ خود امام امت اور عوام کے درمیان رئوفت وعطوفت سے سرشار رابطے کا بیانگر ہے۔
حضرت امام خمینی(رح) لوگوں کی کثرت کے سبب قم پہنچنے کے گهنٹوں بعد مدرسہ فیضیہ پہنچے، جہاں آپ کے گہربار جملے اہل قم کی حیات نو کا سامان فراہم کرسکتے تهے اور انہیں جلاوطنی سے قبل کے حالات کا مزہ چکها سکتے تهے۔ اس تقریر کو صحیفہ امام کی جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 269 – 279 پرملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم بطور خلاصہ کچه مطالب بیان کریں گے:
اعوذ باللَّه من الشیطان الرجیم
بسم اللَّه الرحمن الرحیم
میں، آپ ایرانی عوام کا از حد ممنون ہوں۔ میں، آپ غم دیدہ اور ستم رسیدہ عوام کو ہرگز فراموش نہیں کر پاؤں گا۔ مجه سے آپ کا شکریہ ادا نہیں ہو سکتا۔ میں آپ سبهی کے لئے خدائے سبحان سے سلامتی اور سعادت مندی کا خواہاں ہوں۔
ایرانی عوام نے اپنے خون اور جان کی بازی لگا کر اسلام کو زندہ کیا، اسلام اور مسلمین کی حیات نو انہیں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ تقریباً 300 سال کی استعمار و دشمنوں کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا۔ تقریباً 300 سال تک دوسروں کی دخالت رہی، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے ہوئے، تمام ادیان ومکاتب فکر کے خلاف آوازیں اٹهیں، علماء کے خلاف صدائیں بلند ہوئیں۔ باپ اور بیٹے {رضا شاہ اور محمد رضا شاہ} کے دور میں یہ پروپیگنڈے اپنے عروج پر پہنچے۔ ان اغیار کے کارندوں نے گزشتہ پچاس یا اس سے بهی زائد کچه عرصہ میں ہماری عوام کے حقوق روند ڈالے۔ یہ باپ اور بیٹے ایسے تهے کہ ان کی کارکردگی نے تاریخ کا چہرہ سیاہ کر ڈالا ہے۔ یہ ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں جس کا ایک فیصد بهی ہم بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ ہماری قوم کو قیدی بنایا؛ انہوں نے ہمارے ذخائر لوٹے؛ یہی وہ ہیں جنہوں نے ہماری عوامی طاقتوں کو نیست ونابود کر ڈالا۔ ان کی تمام تر کوشش تهی کہ ہمارے جوانوں اور یونیورسٹیوں کو ترقی سے روکیں، ساته ہی یہ چاہتے تهے کہ دینی مدارس اور حوزات علمیہ اپنی کارکردگی پیش نہ کرسکیں ۔ ۔ ۔