آپ کو عنوان سے سب کچه معلوم ہوگیا ہوگا لہذا بلا مقدمہ، اصل موضوع اور موارد کی طرف توجہ مرکوز رکهیں گے تاکہ آپ(رہ) کے بارے میں کچه نہ کچه شناخت حاصل ہوسکیں۔
1) سخت سے سخت حالات میں پر سکون وکامل اطمینان۔ مثلاً تہران میں مارشل لاء کے زمانے کی خوفناک راتوں میں عراق کےزمینی، ہوائی، بحری حملوں کے وقت اس کے بعد امریکہ کے کمانڈوز کی صحرائے طبس میں یورش وحملہ کے دوران۔
2) زندگی کے تمام مراحل میں سادگی، خودداری، جذب وکشش عوام کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بهی تها۔
3) فضول خرچی (اسراف) سے قطعاً پرہیز اور کفایت شعاری اور وہ بهی ایسی کہ گلاس میں بچا ہوا پانی بهی محفوظ کرلینا تاکہ اس سے آیندہ کام لیا جائے۔ کاغذ کا چهوٹے سے چهوٹا ٹکڑا استعمال کئے بغیر ضائع نہیں کرتے تهے۔
4) خداوند تعالیٰ پر شدید توکل اور الطاف الہیہ پر پورا بهروسہ واطمینان۔
5) کشادگی قلب کےساته مصائب کا تحمل جو انقلاب کے پہلے وبعد کے حساس دنوں میں نازل ہوئے جیسے کہ فرزند بزرگ وجانشین چہل سالہ، عالم دین آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی مرموز واچانک شہادت پر کسی نے امام کو روتے ہوئے نہیں دیکها بلکہ کہا کہ مصطفی کی شہادت، اسلام کیلئے بشارت ہے۔
6) با ہم مختلف علوم سے آشنائی کامل، جیسے فلسفہ، عرفان، کلام، فقہ، تاریخ، تفسیر، ریاضی، ہیئت ونجوم وغیرہ۔
7) تمام امور وافعال میں غیر معمولی اخلاص وقصد قربت۔
8) ہر کام میں نظم وترتیب وپابندی اوقات، امام(رح) کے قریبی لوگ ان کے معمولات وحرکات سے اپنی گهڑی درست کیا کرتے تهے۔
9) لباس، فضائے زندگی (مکان) کی صفائی وپاکیزگی۔
10) عوام سے شدید محبت ورابطہ خصوصاً شہدا کے خاندانوں، محروموں اور بے کسوں کی ہمیشہ ذمہ داروں سے سفارش کرتے رہتے تهے۔
11) مقدسات دین کی حرمت کی حفاظت میں بے مثال غیرت وحمیت (1940ء سے احمد کسروی کو منہ توڑ جواب، سلمان رشدی کے ارتداد اور قتل کا فتوی 1989ء تک)۔
12) دنیا سے بے اعتنائی وزہد، مقام ومنصب کی تلاش میں نہ رہنا، نہ اپنے عزیز قریب کو اس کے پاس جانے دینا۔
13) زندگی کے ہر دور میں شجاعت واستقامت جیسے کہ معصومہ قم میں جب 1963ء میں شاہی کمانڈوز نے مکان کا محاصرہ کرلیا تو آپ خود گهر سے باہر نکل آئے اور کہا کہ میں ہوں روح اللہ خمینی! مجهے گرفتار کرو، نوکروں کو کیوں ستا رہے ہو!
صلح نامہ کو قبول کرنا ان حالات میں امام(رہ) کے سوا کوئی دوسرا ہوتا تو نہ مانتا کیونکہ ایران کی فتح قریب تهی۔
حضرت امام(رہ) جب شاہ سفاک کے گرگوں کے ہاتهوں پہلی بار قید ہوئے (1962ء) تو فرماتے تهے:
"خدا کی قسم میں تمام عمر کبهی خائف نہیں ہوا اور اس رات بهی جب شاہ کے سپاہی مجهے قم سے تہران لے جا رہے تهے وہ ڈر رہے تهے اور میں ان کو دلدہی کرت تها"!
14) شرعی وقانونی ضوابط واصول کی رعایت حتی کہ دیگر ممالک کے قوانین کا لحاظ، جب آپ نوفل شیٹا (فرانس) میں تهے تو وہاں مذبح کے سوا دوسری جگہ پر جانور کو ذبح کرنا منع تها۔ ایک دن ایک دنبہ امام کی قیام گاہ کے پاس ذبح کیا گیا، اگرچہ امام(رہ) ایک عیسائی ملک میں تهے مگر فرمایا: چونکہ حکومت کے قانون کی مخالفت کی گئی ہے اس لئے میں اس گوشت کو نہ کهاؤں گا!"
15) اہل بیت طہارت علیہم السلام کی شدید محبت، امام حسین علیہ السلام کا نام آتے ہی، امام(رح) کی آنکهوں سے آنسو جاری ہوتے تهے۔
16) مخصوص ایام کے اعمال کی سخت پابندی خصوصاً ماہ مبارک رمضان کے شب وروز کے اعمال۔
17) دشمنان اسلام کے مقابل استحکام اور ان سے ہر نرمی یا سازباز کو ٹهکراتے رہنا۔
18) ہر رشتے پر، ہر شخص پر مصلحت اسلام کو مقدم رکهنا جیسے کہ قائم مقام رہبری سے (آقائے منتظری) کو الگ کردینا۔
19) ہمسر واہلیہ کا خاص احترام، ہمیشہ کهانے پر ان کا انتظار کرتے اور ان کے آنے سے پہلے کبهی غذا کو ہاته نہ لگاتے تهے۔
20) مکروہات کو ترک کرنا سالہا سال امام(رح) کے ساته رہنے والوں نے کہا کہ ہم بارہ سال تک امام کے ساته رہے مگر امام(رہ) سے مکروہات سرزد ہوتے نہیں دیکها۔ اسی طرح مستحبات کو ترک نہیں کرتے تهے۔ سنتی نمازیں بهی اقامت کے بغیر نہیں پڑهتے تهے۔
بشکریہ مجموعہ اخبار
صداقت پونے، امام خمینی(رح) نمبر / 1428هـ،