ماہ مبارک رمضان میں امام خمینی رہ کی سادہ زیستی اور خاص قناعت
نجف میں دوران قیام امام خمینی رہ نے ہمیشہ روزہ رکها۔آپ کی افطار نہایت معمولی ہوا کرتی تهی۔اس بات پر خدا گواہ ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز پر آپ کے لئے کباب بنائے جاتے تهے اور حضرت امام رہ ہمارے اصرار پر تهوڑا بہت اس سے تناول فرماتے تهے۔آپ عام طور سے روٹی اور پنیر ہی کهاتے تهے۔
امام خمینی رہ اسلامی حکومت کی باگڈور سنبهالنے اور عظیم ذمہ داریوں کا بوجه اٹهانے کے باوجود شرعی آداب اور مستحبات کی ادائیگی پر خاص توجہ فرماتے تهے۔ماہ مبارک رمضان میں آپ کا اکثر و بیشتر وقت نماز اور قرائت قرآن میں صرف ہوتا تها۔اس کے علاوہ آپ کی کوشش ہوتی تهی کہ اس مبارک و مسعود مہینہ میں سادہ زیستی اور واقعی معنی میں قناعت کے ساته روزہ رکهیں۔حضرت امام رہ کے بعض قریبی افراد کی گفتگو ہمارے مذکورہ مدعی پر بہترین دلیل ہے۔آئیے ایک ساته پڑهتے ہیں:
کسی کو بیدار نہیں کرتے تهے:
زهرامصطفوی:ماہ رمضان کے علاوہ جب کسی اور کو روزہ نہیں رکهنا ہوتا تها ،آپ کسی کو بیدار نہیں کرتے تهے ۔خود چائے کا انتظام فرماتے اور عام طور سے ایک انڈا آپ کی سحری ہوا کرتی تهی۔[۱](برداشت هایی از سیره امام خمینی، ج1، ص 60)
عموماً روٹی اور پنیر سے گزربسر فرماتے:
امام خمینی رہ جب تک نجف میں مقیم رہے ،ہمیشہ آپ نے روزہ رکها۔آپ کی افطاری بہت ہی معمولی اور سادہ ہوا کرتی تهی ۔ اس بات پر خدا گواہ ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز پر آپ کے لئے کباب بنائے جاتے تهے اور حضرت امام رہ ہمارے اصرار پر کچه تهوڑا بہت اس سے تناول فرماتے تهے۔آپ عام طور سے روٹی اور پنیر کهاتے تهے۔[۲]( ایضاً، ج2، ص 91)
اگر شک و شبہہ ہوتا مسافرت فرماتے:
بسا اوقات جب امام خمینی رہ کو اس بات میں شک ہوتا کہ روزہ رکهنا آپ کے مضر ہو سکتا ہے *،آپ سفر پر چلے جاتے اور اس وقت روزہ رکهتے جب آپ کو ضرر نہ پہنچنے کا یقین ہوتا۔[۳](ایضاً، ص 377)
جناب شیخ اپنی غذا جدا کر لیں:
نجف میں مشہدی حسین نامی امام بزرگوار کے ایک خدمتگزار بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بعض افراد امام خمینی رہ کے گهر کے باہر تهے اور کهانے کی مقدار وہی گذشتہ کے مطابق تهی ۔اس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہوا تها۔ایک روز جناب شیخ عبد العلی قرہی نے مجه سے کہا: « گهر کے باہر کهڑے اتنے سارے لوگوں کو ارطار وسحری چاہئے اور آپ کے ذریعہ فرام کیا جانے والا گوشت کم ہے ،اس سے زیادہ لایا کریں۔ »
میں نے بهی اس روز، ان کے بقول زیادہ مقدار میں گوشت لیا۔مجهے ہر رات امام رہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حساب کتاب پیش کرنا ہوتا تها ۔اس رات امام بزرگوار نے تعجب سے دریافت کیا:« کیونکر گذشتہ کی نسبت زیادہ گوشت خریدا؟»«میں نے عرض کیا:جناب شیخ نے مجهے حکم دیا تها ۔»امام خمینی رہ نے جناب شیخ عبد العلی کے تئیں اپنے احترام کا اپس ولحاظ رکهتے ہوئے فرمایا:«جتنا پہلے مہیہ کرتے تهے اتنا ہی لیا کریں،جناب شیخ اگر چاہیں تو اپنی غذا جدا کر لیں۔»![۴] (ایضاً، ص 131 و 132)
بیکار کا کام انجام دیا ہے:
جب ہم بعض سیاسی شخصیات اور شہدا کے گهر والوں کے ساته امام خمینی رہ کی پڑهی جانےو الی نماز جماعت کی ویڈیو بنانا چاہتے تهے ،اجازت کے حصول کی غرض سے امام رہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ اس وقت ہر روز کے معمول کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تهے ،سر اٹهاتے ہوئے آپ نے فرمایا: «کیا کہنا چاہتے ہو؟»میں نے عرض کیا:ہماری خواہش ہے کہ آج رات نماز کی ویڈیو بنانے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے ۔امام رہ نے چند لحظہ افسوس و افسردگی کےساته اپنا سر نیچے جهکائے رکها اور پهر فرمایا:«ویڈیو گرافی کے وسائل فراہم کرکے تم لوگوں نے بیکار کام انجام دیا ہے۔»
میں متوجہ ہو گیا کہ اگر میرا اصرار نہ بڑها تو موضوع منتفی ہو جائے گا ۔میں نے کہا:آقا ہم لوگوں نے زحمت برداشت کر لی ہے اور آپ کے مہمان حضرات بهی آپ سے اس بات کو قبول کرنے کے منتظر ہیں ۔لہٰذا امام رہ نے با دل نخواستہ اسے قبول فرمایا۔[۵](ایضاً، ص 148)
نصف شب میں حسینیہ پہنچے:
ماہ مبارک رمضان کی ایک رات میں نے دیکها :ایک فوجہ دوڑ رہا ہے اور کہتا جا رہا ہے:«دوستو آئو ۔امام رہ حسینیہ تشریف لائے ہیں۔»تقریباً نصف شب تهی ۔ہم پہنچے تو ہم نے دیکها امام رہ اپنے اسی سادے لباس میں سر پر ٹوپی پہنے حسینیہ تشریف لائے ہیں۔ ہم لوگ تقریباً بیس افراد تهے ۔امام ہمارے جذبات کیق در کرتے اور ہمارے سوالات کے جواب دیتے۔[۶] (ایضاً، ص 199)
تہران میں بم بارانی کے باوجود امام رہ کا اطمینان نفس:
سن ۶۴ ہجری شمسی کے تیسرے یعنی خرداد ماہ کی ابتدا میں ماہ مبارک رمضان تها۔عراق کے طیارے تہران کی فضا میں ،دن و رات پر توجہ دئے بغیر کسی بهی وقت بم بارانی کر رہے تهے ۔اس کے ساته ٹینکوں کی دلخراش اور دل دہلا دینےو الی صدائیں تہران کے شمالی علاقہ میں واقع پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکراتی تهیں جس کے سبب لوگوں کی نینند غائب اور آرام حرام ہو گیا تها۔رات بهر نہ سو سکنے کے سبب لوگ صبح کے وقت نیند سے بهری آنکهوں کے ساته گهروں سے باہر آتے جس کی وجہ سے کاموں میں خلل واقع ہوتا ۔باوجود اس کے کہ امام خمینی رہ کسی کے تابع نہ تهے اور کسی بهی کام کی انجام دہی میں اپنی مرضی کے مالک تهے ،اس کے باوجود کہ اکثر افراد صبح کی گهڑیوں میں امام سے استراحت فرمانے کی گزارش کرتے کیونکہ صبح میں شہر کی وضعیت کچه بہتر ہوتی تهی لیکن امام ہمیشہ کی طرح صبح ٹهیک آٹه بجے اپنے حجرہ میں وارد ہوتے اور لوگوں سے ملاقات فرماتے۔ایک روز ڈاکٹر عارفی نے طبی معائنہ کے بعد امام سے دریافت کیا:«ماہ رمضان میں ان دنوں آپ کی نیند اور استراحت کی ٹائمنگ میں فرق تو نہیں آیا ہے؟اس میں کمی تو نہیں آئی؟» آپ نے فرمایا:«نهیں» ڈاکٹر نے دوبارا پوچها:«کوئی فرق نہیں پرا ہے؟»امام رہ نے پهر سے جواب دیا:«نهیں.»[۷](همان، ص 278)
امام درس و بحث کی خاص پابندی فرماتے تهے:
محترمہ مصطفوی:امی جان !میں نے سنا ہے کہ آپ کیش ادی ماہ رمضان میں ہوئی تهی ،جب کہ اس مہینہ میں شادی کی رسم کم ہی مرسوم ہے۔پهرکیوں ایسا ہوا؟
زوجہ امام:کیونہ ان دنوں مدارس بند تهے اور دروس کی چهٹیاں چل رہی تهیں۔
محترمہ مصطفوی:اس کا مطلب یہ کہ امام خمینی رہ اس قدر دروس کو اہمیت دیتے تهے کہ شادی کے لئے بهی اپنے دروس کی چهٹی پر آمادہ نہ تهے؟
زوجہ امام:ہاں!امام دروس کو خاص اہمیت دیتے تهے ۔فرماتے تهے:چونکہ ان دنوں دروس نہیں لہٰذا یہی شادی کا بہترین موقع ہے۔[۸](ایضاً، ص 331 و 332)
ماہ رمضان خود ایک عظیم کام ہے:
اس بات کا راز کہ امام خمینی رہ ماہ مبارک میں ملاقاتوں کا سلسلہ تقریباً روک دیا کرتے تهے؛یہ تها کہ ہمیشہ سے زیادہ دعا،قرائت قرآن کریم اور عبادت وبندگی کر سکیں ۔امام رہ فرماتے تهے:«ماہ رمضان خود ایک عظیم کام ہے»[۹](ایضاً، ج3، ص 89)
ماہ رمضان میں شعر نہیں پڑهتے تهے:
امام خمینی رہ کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ امام رہ کچه خاص مہینوں جیسے ماہ مبارک کے لئے خاص اہتمام فرماتے ،کچه اس طرح کہ اس مبارک مہینہ میں شعر نہ ہی پڑهتے اور نہ ہی سنتے ۔اس مہینہ میں آپ اپنے وجود میں خاص قسم کا تغیر لاتے ۔پورا ماہ رمضان قرآن مجید کی تلاوتمدعا اور مستحبات کی انجام دہی میں بسر فرماتے۔[۱۰](ایضاً، ص 89 و 90)
آنسوئوں کے لئے رومال نا کافی ہوتے:
امام خمینی رہ کی رحلت سے قبل پڑنے والا ماہ رمضان مجهے اچهی طرح یاد ہے۔بسا اوقات جب بهی کسی کام سے امام کے پاس جانا ہوتا اور آپ کے ساته نماز کی ادائیگی کا موقع ملتا ،جیسے ہی کمرہ میں داخل ہوتی کیا دیکهتی کہ امام رہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہے اورآپ اس طرح زار زار گریہ فرماتے کہ رومال میں آنسو نہ سما پاتے ،اسی لئے آپ اپنے ہاته پر تولیا رکهتے تهے۔اکثر راتوں میں امام کی یہ کیفیت قابل مشاہدہ تهی ۔جس سے عشق خدا وندی آپ کی ذات میں جلوہ نمائی کرتا تها۔[۱۱](ایضاً، ص133)
اس قدر دقت بینی ضرورت نہیں ہے:
امام خمینی رہ دوران تحصیل نہایت سادہ اور روان زبان میں گفتگو فرماتے تهے۔مباحثات میں احتیاط پر خاص توجہ نہیں دیتے تهے۔مثال کے طور پر روزہ کے مسائل میں بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ماچس کی تیلی سے خلال کرے اور دوبارہ اسے منه میں رکه لے اس کے بعد اس کی رطوبت حلق کے اندر لے جائے تو اس کا روزہ باطل ہے۔امام رہ کا کہنا ہے :«سوال اس بات کا ہے کہ ایک ماچس کی تیلی یا خلال میں کتنی رطوبت آتی ہے کہ دوبارہ میں رکهنے کی صورت میں اس کا شمار کهانے اور پینے میں ہوگا؟.»امام خمینی رہ کا ماننا تها کہ اس قسم کے احتیاط سے انسان وسواس کا شکار ہو جاتا ہے جس سے حقیقت سے دوری ہاته آتی ہے۔[۱۲](ایضاً، ج5، ص 76)
حواشی:
[1]. مصطفوى، زهرا؛ پابه پاى آفتاب (چاپ جدید)؛ ج 1، ص 182 و 183.
[2] . حجةالاسلام والمسلمین فرقانی، آیینه حسن، ص 152.
* - اس عمل سے ماہ رمضان کی حرمت کا پاس ولحاظ رکهتے تهے۔
[3] . آیت الله ایزدی نجفآبادی.
[4] . آیت الله خانم یزدی – سرگذشتهای ویژه از زندگی امام خمینی – ج 2، ص 146 و 147.
[5]. حجةالاسلام والمسلمین انصاری کرمانی – مصاحبه مؤلف.
[6] و5. تیموری – از محافظین بیت امام – در رثای نور، ص 64.
[7] . حجةالاسلام والمسلمین رحیمیان، پا به پای آفتاب (جدید)، ج 2، ص 251.
[8] . فصلنامه ندا – ش 12، ص 17.
[9] ـ آیت الله توسلی - حوزه - ش 45 - ص 59.
[10] ـ حجةالاسلام و المسلمین آشتیانی - پاسدار اسلام - ش 93 - ص 31.
[11] ـ فاطمۀ طباطبایی - ص 180.
[۱۲] آیت الله حسین بدلا ـ پا به پای آفتاب؛ ج 2، ص 303.