لفظ عید مادہ عود سے، پلٹنے اور بازگشت کے معنیٰ میں ہے اور کیونکہ روز عید کو شریعت مقدس اسلام میں سرور و خوشحالی کا دن قرار دیا گیا ہے، اس لئے ہر وہ دن جس میں انسان کی یہ حالت ہو اسے عید سے تعبیر کرتے ہیں۔
عید وہ روز ہے جس دن ہم خداوند متعال کی یاد اور اس کے اولیاء خاص سے کئے ہوئے عہد و پیمان سے غافل نہ ہوں، جس روز ہم خدا اور اولیائے خدا کی یاد سے غافل ہوں (چاہے وہ عید ہی کا دن کیوں نہ ہو)، وہ دن حقیقت میں روز عزاء ہے، اور اسی مطلب کی تائید مولائے کائنات علی ابن ابیطالب(ع) کا یہ قول کرتا ہے: "کلُّ یومٍ لا یُعصیٰ اللہُ فیه فهو عیدٌ"۔ "ہر وہ دن جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے"۔
قیامت کا دوسرا نام معاد ہے، اور یہ معاد بهی اسی مادہ عود سے مشتق ہے، یعنی تمام انسانوں کی مکمل طور پر اللہ کی طرف بازگشت۔ اگر ہم عید کو اس کے حقیقی معنیٰ کے طور پر لیں تو ہر عید، معاد ہے، یعنی اللہ کی طرف پلٹنا، لیکن یہ پلٹنا نیکیوں، خوبیوں اور با ارزش چیزوں کی طرف بازگشت کرنا ہے، اور کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا ہر روز عید (معاد) ہو، اور وہ ہر روز اللہ کی طرف بازگشت کرے، اور ائمہ معصومین(ع) سے تجدید عہد کرے۔ اسی مطلب کی طرف علامہ سید بحر العلوم اپنی کتاب سیر و سلوک میں اشارہ فرماتے ہیں: انسان اسی دنیا میں اپنی معاد اور قیامت کو برپا کرسکتا ہے اور اپنی اصل (فطرت معنوی و روحانی) کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
وہ ایام سعیدہ کہ جن کو اصطلاحاً عید سے موسوم کیا جاتا ہے، ان میں ایک عنوان، عید نوروز کا بهی ہے کہ جو ظاہری طبیعت کی بہار و شکوفائی اور رنگ و بو کی دلپذیر تبدیلی کے علاوہ معنوی اور روحانی رنگ و بو کو بهی اپنے ہمراہ لئے ہوئے ہے۔
عید نو روز امام جعفر صادق(ع) کی نظر میں:
معلی ابن خنیس نقل کرتا ہے کہ: میں نو روز کے دن حضرت امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں پہنچا، حضرت نے فرمایا: کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟ (کہ آج کیا دن ہے؟) معلی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: قربان جاؤں! آج وہ دن ہے جس کی اہل عجم تعظیم کرتے ہیں اور اس دن ایک دوسرے کو تحفہ و تحائف دیتے ہیں۔ حضرت(ع) نے فرمایا: میں خانہ کعبہ کی قسم کهاتا ہوں کہ عجم کا اس دن کی یہ تعظیم کرنا نہیں ہے، مگر اس قدیمی امر کی خاطر جو کہ میں تمهارے لئے تفصیل سے بیان کرتا ہوں تاکہ اس کو سمجه جاؤ۔
معلی کہتا ہے میں نے عرض کیا: اے میرے سید و سردار! اے میرے مولیٰ! میرے لئے آپ کے وجود کی برکت سے اس بات کا جاننا زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمن مر جائیں۔ حضرت نے فرمایا: اے معلی! حقیقت یہ ہے کہ نو روز کا دن، وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے روز الست تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا عہد و پیمان لیا اور یہ کہ کسی کو اس کو شریک قرار نہ دیں گے، اور عبودیت و عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے، اور اس کے بهیجے ہوئے پیغمبروں اور مخلوق پر اللہ کی حجتوں، اور آئمہ معصومین(ع) پر ایمان لائیں گے، اور یہ (نوروز) وہ پہلا دن ہے، جب سورج طلوع ہوا، اور درختوں کو ثمرآور کرنے والی ہوائیں چلائی گئیں، اور زمین پر پهول اور کلیاں چٹکنے (کهلنے) لگیں، آج ہی کے دن حضرت نوح(ع) کی کشتی (طوفان نوح کے بعد) کوہ جودی پر ٹهہری، اور یہی وہ دن تها جب جبرائیل پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوا اور ان کو تبلیغ دین پر مامور کیا، یعنی آنحضرت کی بعثت اسی دن ہوئی تهی، آج ہی کے دن حضرت ابراهیم(ع) نے بتوں کو توڑا، اور یہی دن تها جب پیغمبر نے اپنے اصحاب کو امیر المؤمنین علی(ع) کی بیعت کا حکم دیا، اور فرمایا: علی کو امیرالمؤمنین کہہ کر پکاریں، یعنی روز عید غدیر بهی اسی دن ہوا تها، اور اسی دن خلافت ظاہری حضرت علی(ع) کی طرف پلٹ آئی، اور عثمان کے قتل کئے جانے کے بعد لوگوں نے دوبارہ مولا علی(ع) کی بیعت کی، اسی دن حضرت علی(ع) نے خوارج کے ساته جنگ کی، اور ان پر غلبہ حاصل کرکے کامیاب ہوئے، اور اسی دن قائم آل محمد امام زمانہ(عج) ظہور فرمائیں گے، اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کریں گے، اور کوئی نوروز کا دن ایسا نہیں جب ہم انتظار فرج نہ کرتے ہوں، اس دن کو عجم والوں نے حفظ کیا ہے اور اس کی حرمت کی رعایت کی ہے، اور تم نے اس کو ضائع کردیا ہے۔
(زاد المعاد، علامہ محمد باقر مجلسی، ص523؛ نیز جواہر الکلام، ج1 اغسال مستحبہ)۔
روز نو روز کی دوسرے دنوں پر فضیلت:
ہر وہ دن جس کے بارے میں کوئی خاص حکم، مثلا غسل کرنے، کوئی خاص نماز پڑهنے یا روزہ رکهنے وغیرہ کے حوالے سے، بیان ہوا ہو، یقیناً وہ دن دوسرے دنوں پر فضیلت اور برتری رکهتا ہے، اور نوروز ایسے ہی مخصوص دنوں میں سے ہے جس کے بارے میں کچه مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہیں اور اکثر فقہی، استدلالی اور دعاؤں کی کتابوں میں ان کا بیان آیا ہے اور اکثر متقدمین و متاخرین مراجع تقلید نے ان اعمال کو اعمال عید نوروز کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔
اعمال عید نوروز حدیث کی روشنی میں:
کسی عمل کے شرعی ہونے کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت شریفہ یا معصومین(ع) کی کوئی روایت اس عمل کے شرعی ہونے پر دلالت کرے، نو روز کے سلسلے میں معلی ابن خنیس کی امام جعفر صادق(ع) سے تفصیلی روایت ہے کہ:
معلی ابن خنیس، امام جعفر صادق(ع) سے نقل کرتا ہے کہ امام نے نوروز کے دن کے بارے میں فرمایا: جب نو روز کا دن ہو، پس تم غسل کرو اور اپنے پاکیزہ لباس کو زیب تن کرو، اور اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کرو، اور اس دن روزہ بهی رکهو، اور جب نماز نافلہ و فریضہ ظہر و عصر سے فارغ ہوجاؤ، تو اس کے بعد چار رکعت نماز (عید نوروز کی دو دو رکعت کرکے) پڑهو، پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ﴾(سورہ قدر)، اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ﴿قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُونَ﴾(سوره کافرون) پڑهو۔
اور تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ توحید، اور چوتهی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ معوّذتین یعنی سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑهو، اور دونوں نمازیں پڑهنے کے بعد سجدۂ شکر بجا لاؤ، اور سجدے میں اللہ رب العزت سے جو چاہو مانگو، اس عمل سے تمهارے پچاس سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے"۔
مصباح المتهجد، شیخ ابوجعفر محمد ابن الحسن الطوسی، ص591)
فقهی منظر سے عید نو روز کا روزہ:
عید نوروز کے غسل کی طرح، عید نوروز کے روزے کو بهی تمام فقہائے متقدمین و متاخرین نے بیان کیا ہے اور قطعا ان عظیم شخصیات کا (جنہوں نے اپنی عمر شریف کا بیشتر حصہ آیات و روایات اسلامی کو جانچ پڑتال اور چهان بین میں صرف کیا ہے اور صدیوں سے انکی علمی و تحقیقی کتابیں حوزہ ہای علمیہ اور مدارس دینیہ میں پڑهائی جاتی ہیں) کسی عمل کے مستحب ہونے کے بارے میں فتویٰ دینا، دلیل متقن و مستند و محکم کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور فقہاء و مجتہدین کے فتوے عید نوروز کے اسلام میں معتبر و محترم ہونے کی بہترین دلیل بهی ہیں۔
صاحب جواہر مرحوم شیخ محمد حسن النجفی فرماتے ہیں: جیسا کہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مذکورہ موارد کے علاوہ بهی چند مورد میں روزے کے استحباب کی تاکید کی گئی ہے، جیسے: نو روز کے دن کا روزہ اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کا روزہ وغیرہ۔۔۔"۔
(جواہر الکلام، شیخ محمد حسن النجفی، ج17، ص113)
عید نو روز کے دن پاکیزہ لباس پہننا اور عطر کا استعمال مستحب ہے۔
عید نو روز کے موقع پر ہدیہ دینا پسندیدہ امر ہے:
مرحوم ابوجعفر محمد ابن علی ابن بابویہ القمی (معروف بہ شیخ صدوق) فرماتے ہیں: عید نو روز کے دن حضرت علی(ع) کیلئے ہدیہ لایا گیا، حضرت نے پوچها: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین، آج نوروز کا دن ہے (اور یہ ہدیہ اسی مناسبت سے ہے)۔ حضرت امیر نے فرمایا: ہمیشہ اس طرح کے کام کیا کرو، اور تمہارا ہر روز نو روز ہو۔
(من لایحضرہ الفقیہ، ابوجعفر محمد ابن علی ابن بابویہ القمی شیخ صدوق، ج3، ص30؛ نیز رجوع کریں: وسائل الشیعۃ، شیخ محمد ابن الحسن الحرّ العاملی ، ج12، ص213؛ دعائم الاسلام، ج2، ص326)