افغانستان، امام خمینی(رح) کے کلام، امام(رہ)، افغان اور عالمی شخصیات کی نگاہ میں، یہ ہے سید محمد باقر مصباح زادہ افغانستانی کی کتاب کا نام۔ اس کتاب کے مقدمہ میں آپ پڑهیں گے:
جو لوگ انقلاب اسلامی اور امام خمینی(رح) کی شخصیت کے بارے میں شناخت رکهتے ہیں، وہ بخوبی واقف ہیں کہ امام(رہ) 15 خرداد 1342هـ،شمسی (5 جون 1963ء) سے اپنی بابرکت عمر کے آخری ایام تک اپنے افکار اور اعلی درجے کے نظریات کو جو کہ اسلام ناب محمدی(ص) کے دریائے بیکراں سے پهوٹ پڑے اور انسانی اقدار کی بنیادوں پر استوار تها، یک بہ یک میدان عمل میں عملی جامہ پہننا دیا۔
امام خمینی(رح) نے سیکولرزم کی ظلمت میں اور انسانی اقدار کے سقوط کے دوران، نور ایمان کو دسیوں بلکہ لاکهوں مسلمان اور غیر مسلم انسان کے دل میں پرتو افشانی فرمایا۔
درحقیقت، امام خمینی(رح) کی راہ وہی اسلام کی راہ ہے، آپ(رہ) نے اسی راہ کو پابندی سے طے کیا تو بیسویں صدی میں اسوہ اور نمونہ کی حیثیت سے پہچانا جاتے تهے۔ مبارزین اور مفکرین کی بڑی تعداد، شیعی مذہب سے وابستہ ہو یا سنی مسلک سے، ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دوران، اسی نظریہ پر تهیں اور آپ کو حقیقی معنوں میں نمونہ عمل قرار دے دیتے تهیں۔
البتہ امام خمینی(رح) کی راہ وروش میں چند خصوصیات پائی جاتی ہے جو کہ مستکبرین اور عالمی غندہ گردوں کے خلاف قیام کرنا سب سے اہم ترین مشخصہ ہے۔
سیاسی اور سماجی زوایہ دید سے، ہم راہ خمینی(رہ) کو تین اصولوں پر قائم کرتے ہوئے بیان کریں گے:
۔ وحدت انسانی کی بنیاد، جو کہ بشریت کو ظلم وستم کے قید وبند سے رہائی دلانے کیلئے ہے۔
2۔ وحدت اسلامی کی بنیاد، جو کہ امت مسلمہ کو اندرونی ڈکٹیٹرشپ اور بیرونی ستمگر طاقتوں سے نجات دلانے کیلئے ہے۔
3۔ اور بالآخر، وحدت ملی (قومی وحدت) جو کہ ہر مسلم قوم کو اپنے ہی جغرافیائی اور ارضی دائرے میں بسر کرنے کیلئے ایک فرضی چار دیواری قائم کررکهے۔
امام خمینی(رح) نے بشریت کو ظلم وستم کے چنگل سے رہائی بخشنے کیلئے، سماجی اور معیشتی مصائب اور تبعیض سے نجات پانے کیلئے "جبہہ مستضعفین علیہ مستکبرین" کی تشکیل کی درخواست کی اور اسی مناسبت سے حضرت امام زمانہ(عج) کی یوم ولادت کو "روز جہانی مستضعفین" کے نام سے رکها گیا۔ امت مسلمہ کو پسماندگی کے شر سے نجات، اندرونی ڈکٹیٹرشپ اور بیرونی تسلط پسند سپر پاور سے رہائی کی خاطر، اسلام کے زیرسایہ، وحدت اسلامی اور وحدت ملی، پر تاکید کی گئی۔