امام بڑے مہر ومحبت کے مالک تهے۔ مثلاً جب ہم نجف میں تهے اور کبهی ہماری بہنیں ایران سے وہاں آتی تهیں اور جب ایران واپس جانا چاہتی تهیں تو ایسا ہوتا تها کہ میں صحن میں امام سے خدا حافظ کہنے کے منظر کو دیکه نہیں پاتا تها۔ چهوڑ کے چلا جاتا تها۔ میرے مرحوم بهائی بهی یہی کہتے تهے کہ وہ بهی خدا حافظ کہنے کے اس منظر کو نہیں دیکه پاتے تهے، کیونکہ امام ؒ اس حد تک اپنے فرزندوں یعنی اولاد سے مہر ومحبت کا سلوک کرتے تهے کہ انسان اس کو دیکهنے کی تاب نہیں رکهتا تها۔ لیکن اتنی شدید مہر ومحبت ان کے عزم وارادہ اور فیصلوں میں ذرا بهی خلل نہیں ڈال سکی یا جو کام ان کو کرنا ہوتا اس میں اولاد کی محبت ذرا بهی مخل نہیں ہوسکتی تهی۔ اس سے ان کے وظائف میں کوئی اثر نہیں پڑتا تها۔