راوی: بہجت خانم (امام کے ماموں کی بیٹی)
میرے والد آقائے مصطفی (امام کے والد) کے مسلح محافظ تهے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کا گهر بهی آقائے مصطفی کے گهر سے نزدیک تها۔ میری والدہ کو جو بچے ہوتے تهے، پیدا ہونے کے تهوڑے دنوں بعد مرجاتے تهے۔ امام کی پهوپهی نے ایک دن میرے والد سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارا بچہ فوت ہوگیا ہے، چونکہ روح اﷲ کی ماں کو دوده نہیں ہوتا ہے اگر ’’خاور‘‘ اسے دوده پلا دے تو اسے ثواب ملے گا اور بچے کی جان بهی بچ جائے گی۔ میرے والد کہتے ہیں: ذرا بیوی سے اجازت لے لوں۔ وہ گهر آتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’خاور! آقا مصطفی کی بہن کہتی ہے اپنا دوده خشک نہ کرو اور ’’روح اﷲ‘‘ کو دوده پلانے پہ راضی ہو جاؤ تو تمہیں ثواب بهی ملے گا‘‘ میری ماں نے ہنس کر کہا کہ جی ہاں! اس طرح تو میرا سینہ بهی جہنم کی آگ سے بچ جائے گا۔ اس کے بعد میرے والد جلدی سے آتے ہیں اور امام کی پهوپهی کو یہ قصہ سناتے ہیں۔ وہ لوگ بهی فوراً آقائے روح اﷲ کا گہوارہ ہمارے گهر میں لا کر رکه دیتے ہیں۔ جب آقائے روح اﷲ کو لایا گیا تو میری والدہ اپنی جگہ سے کهڑی ہوگئیں اور جا کر اپنا سینہ دهویا اور حمد وسورہ { قُل ہو اﷲ } پڑها۔ امام کے چہرے کو چوما اور اپنے سینہ سے لگا کر دوده پلایا۔ آقائے روح اﷲ کے والد نے کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ جب تک آپ میرے بچے کو دوده پلائیں گی کسی کے ہاته کا کهانا نہیں کهائیں گی۔ اس کے بعد وہ خود گهر سے روزانہ کئی وقت کا کهانا اور خوراک وغیرہ بهیجا کرتے تهے تاکہ میری والدہ ان کی بهیجی ہوئی غذا کهاتیں۔ آقائے روح اﷲ نے دو سال تک دوده پیا۔ دو سال کے بعد ان کو دوده چهڑا دیا گیا اور ان کو اپنے گهر لے گئے۔ لیکن وہ میری والدہ کے پاس آیا کرتے تهے۔ میری ماں ہنستی تهی اور والد کہتے تهے: روح اﷲ جان! تم تو اب دوده نہیں پیتے ہو پهر کیوں نہیں اپنے گهر جاتے ہو؟ وہ کہتے تهے: میں آپ کے پاس رہوں گا۔