راوی: خانم زہرا مصطفوی
میں ایک عرصے تک امام کے کمرے میں سویا کرتی تهی۔ جن دنوں والدہ سفر پہ ہوتی تهیں، فرماتے تهے کہ لازم ہیں ہے کہ تم میرے پاس سویا کرو۔ کیونکہ تمہاری نیند بہت ہلکی ہے اور یہ میرے لیے مشکل ساز ہے یہاں تک کہ جو گهڑی اپنے جاگنے کیلئے رکهی تهی میں نے دیکها کہ ایک کپڑے میں لپیٹ کے دوسرے کمرے کے اس طرف لے جا کر رکه دی تاکہ جب الارم بجے تو میں بیدار نہ ہو سکوں۔
آدهی رات کو میں جگ گئی لیکن ایسا ظاہر کیا کہ میں جگ نہیں رہی ہوں، چونکہ امام نماز شب پڑهنا چاہتے تهے۔ دوسرے دن صبح کے وقت یہ معلوم کرنے کیلئے کہ میں بیدار تهی یا نہ، مجه سے کہا: ’’تم نے الارم کی آواز سن لی؟‘‘ میں چاہتا تها کہ نہ سچ بولوں اور نہ جهوٹ، اس لیے کہا: کیا آپ کے کمرے میں گهڑی تهی کہ میں جاگتی؟ آپ سمجه گئے کہ میں بہانہ بنا رہی ہوں، فرمایا: ’’میری بات کا جواب دو، الارم سن کر تمہاری آنکه کهلی تهی یا نہیں؟‘‘ جواب دینے پہ مجبور ہوئی، لہذا کہا: شاید میں جگ گئی تهی، کیونکہ گهڑی کافی فاصلہ پر تهی اور اس کی آواز بهی ہلکی تهی۔ یہ سن کر حضرت امام ؒ نے کہا: ’’اب تم بالکل بهی میرے پاس نہ سونا، کیونکہ مجهے ساری تکلیف یہ ہوتی ہے کہ تم جا گتی ہو‘‘ میں نے عرض کیا: میں خاص کر چاہتی ہوں کہ کوئی آپ کے پاس سوئے۔ (یہ وہ وقت تها کہ امام دل کے مریض تهے اور تہران آئے ہوئے تهے)۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ ہوجائے تو وہ خیال رکهے، فرمایا: ’’نہیں! جاؤ اپنی بیٹی لیلا سے کہو کہ وہ یہاں آئے‘‘ چند دن جب گزر چکے تو کہا: ’’ لیلا کیلئے بهی ضروری نہیں کہ وہ یہاں سوئے، چونکہ وہ اپنے اوپر سے کمبل پهینکتی ہے اور میں مجبور ہوتا ہوں کہ مسلسل جاگ کے اس کے اوپر کمبل ڈالوں‘‘۔