اسلامی مذاہب کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے نیز متعدد مذاہب سے آپسی اختلافات کو ختم کرنے کے چارہ کار کے بارے میں دانشگاہ علوم قضائی اور دانشکدہ وزارت امورخارجہ کے استاد حجت الاسلام ڈاکٹر بہمن اکبری نے بیان کیا: ہم جس قدر آپسی نزاع سے دور رہتے ہوئے، مشترکات میں آپسی تعاون کی جانب قدم آگے بڑهائیں، کامیابیاں اس قدر ہمارے قدم چومیں گی۔ اس سلسلہ میں ہمیں کم سے کم تین اہم اقدام کرنے ہوں گے:
تشیع اور تسنن دونوں کو مشترکہ معرفت تک پہنچنا ہوگا اور انہیں ایک دوسرے کی نسبت شناخت حاصل کرنی ہوگی۔
دوسرا اہم قدم، مشترکہ طورپر یہ سمجهنا ہوگا کہ ہمیں اصول دین میں متحد ہونا پڑے گا۔
جب ہم اس مشترکہ تفہیم کو حاصل کرلیں گے تو یقیناً آپسی افہام وتفہیم کے حصول سے مدارا کر سکیں گے۔
موصوف نے جماران نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے اس سوال کے جواب میں کہ امام خمینی(رہ) کے اتحاد پر مشتمل شعار پر کیا صحیح طور پر غور کیا جا سکا ہے؟ کہا: اتحاد کو تهئیوری اور پریکٹکل دونوں درکار ہیں۔ امام امت کے افکار کی شناخت کے لئے آپسی گفتگو لازم ہے۔ نظریات میں غور وفکر نیز فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں صاحب نظر ہونے کے ساته ساته دوسروں کی بات سننے والا ہونا چاہئے۔ متعدد آیات میں منجملہ آیہء "فبشر عباد الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنه" میں اس موضوع کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ پریکٹکل اور عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں تقریب کا سہارا لینا ہوگا جس کا آغاز آپسی جنگ وجدال اور نزاع سے دوری قرار پاتا اور انجام مشترکہ تعاون ہوتا ہے۔ جس کا حداقل یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپسی خونریزی سے بچیں۔ نہ صرف یہ کہ ایک مسلمان کسی مسلمان کے خون سے اپنا ہاته رنگین نہ کرے بلکہ کسی پر بهی ظلم و ستم بهی نہ ہو۔
ایک دوسرے سوال کہ اسلامی ممالک کے آپسی اتحاد و اختلاف کے کیا نتائج قابل ذکر ہیں؟ موصوف نے جواب دیا: حکومتیں تمام لوگوں کے درمیان بالعموم اور بالخصوص مسلمانوں کے آپسی اتحاد واتفاق کا زمینہ فراہم کر سکتی ہیں۔ یہی حکومتیں خدا نخواستہ، مسلمانان عالم کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کو پاش پاش بهی کرسکتی ہیں۔
حجت الاسلام اکبری نے اضافہ کیا: اسلامی جمہوریہ ایران میں پائی جانے والی دینی ماہیت کے لحاظ سے امام خمینی(رہ) نے فرمایا تها: "ہم اہل سنت برادران کے بهائی ہیں" اور اسی طرح آپ نے فلسطین کی مظلوم عوام اور دنیا بهر کے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر صدائے احتجاج بلند کرنے کو اپنی سیاست کا جزء قرار دیا تها۔
اختتامی کلمات میں آقای اکبری نے کہا: اختلافات، خرافات، انحرافات اور تشدد کو صرف دنیائے اسلام سے باہر، اغیار سے منسوب کرنا ہرگز صحیح نہیں ہوگا۔ اگر خود ان کے داخلی مسائل اجازت نہ دیں تو ہرگز اغیار اور بیرونی طاقتیں موثر نہیں قرار پا سکتی ہیں۔ اگر عالم اسلام میں آپسی نفرتوں سے بیزاری اور آپسی اتحاد ویکدلی و یکجہتی پائی جائے، تو حتماً اغیار ہمارے درمیان اختلافات کے بیج نہیں بو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات مشخص ہے کہ بیرونی عوامل اور بعض طاغوتی طاقتیں ہمارے آپسی اتحاد سے پریشان ہیں اور انہیں ہر وقت اسے ختم کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ عالم اسلام اور اسلامی مذاہب کا اقتدار اسی اتحاد سے میسر ہوگا جو کسی بهی صورت انہیں برداشت نہیں۔