عدالت کے ملکہ اور نفسانی حالت کا مسئلہ کچه ایسا ہے کہ اکثر فقہاء، متکلمین اور فلاسفہ نے اس پر اتفاق نظر کیا ہے۔ یہ ملکہ و عادت نیز نفسانی کیفیت وحالت؛ مشق و تمرین، حق وحقیقت کی طرف رجحان، تقوی اور اپنے ذاتی منافع کے ایثار اور دوسروں کے مصالح کو اہمیت دینے کے نتیجہ میں عدالت کی راہ اختیار کر کے مختلف سطوح میں آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اسے گناہوں سے دوری اور دوسروں کے بارے میں زبان کهولنے سے نجات ملتی اور ساته ہی واجبات کی ادائیگی کے علاوہ عمومی فائدہ کے تحت ایثار وفداکاری کے جذبہ سے سرشار کرتی، نیز تقوی، مروت، جوانمردی اور اعتدال کی دعوت دیتی۔ ابن ابی الحدید کے مطابق: عدالت ایک ایسے ملکہ کا نام ہے جس کے نتیجہ میں انسان نیک اور با فضیلت افعال کو خود بخود بغیر کسی زحمت وپریشانی {خلقاً لا تخالقاً} کے انجام دیتا ہے(1)۔
امام خمینی(رح) اس معنی میں عدالت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: عدالت ایسی نفسانی صفت ہے کہ جو ہمیشہ انسان کو تقوی پیشہ کرنے اور انجام واجبات، نیز ترک محرمات کی تاکید کرتی رہتی ہے(2)۔
عدالت کا یہ معنی، فقہ کے زاویہ دید سے بیان ہوا ہے اور فقہ کے مختلف ابواب میں کسی فرد کے شرائط میں بیان ہوا ہے وہ فرد جس نے کسی خاص عہدہ ومنصب کو سنبهالا ہو جیسے ولی فقیہ، امام جمعہ، امام جماعت، قاضی اور شاہد و۔۔۔۔ جیسا کہ اشارہ ہوا کہ عدالت کا یہ مفہوم اور معنی فردی ہونے کے باوجود عین ممکن ہے تقوی کے مترادف بهی ہو۔ اسی بنیاد پر اس زاویہ دید سے عدالت مختلف سطوح اور مراحل کی حامل ہو سکتی ہے جس کی سب سے نچلی سطح واجبات کی انجام دہی اور ملا عام میں ترک محرمات قرار پائے گی اور جو واجب کے ترک یا حرام کے ارتکاب سے ساقط بهی ہو سکتی ہے۔ البتہ امام(رح) نے گناہان کبیرہ پر بهی خاص تاکید فرمائی ہے، البتہ عدالت کی مذکورہ تعریف کرنے کے بعد(3)۔
تَزولُ صِفة العِدالة ـ حُکماً ـ بِاِرتکاب الکَبائر اَوْ الاِصرار عَلَى الصَغائر، بَل بِارتکابِ الصَغائِر عَلَى الاَحوط، وَ تَعود بِالتَّوبة اِذٰا کانت المَلَکة المَذکورة بٰاقیةَ۔(4) یعنی عدالت کی صفت فقہی احکام کے مطابق، گناہان کبیرہ کے ارتکاب یا پهر گناہان صغیرہ کے بار بار انجام دینے کے سبب زائل ہو جاتی ہے بلکہ بغیر اصرار اور بار بار انجام دینے کے بجائے گناہان کبیرہ کا ارتکاب بهی اس صفت عدالت کو زائل کر دیتا ہے۔ اور اگر عدالت جیسی صفت اور ملکہ کسی شخص سے زائل ہوجائے تو توبہ کے ذریعہ دوبارہ حاصل ہو سکتی ہے۔
اسی طرح عدالت کی شناخت، امام خمینی(رہ) کی نظر میں مندرجہ ذیل طریقوں سے ممکن ہے:
۱: دو عادل کی گواہی سے(5)۔
۲: اس شخص سے ملاقات کہ جس سے اطمینان اور علم و یقین حاصل ہوجائے(6)۔
۳: ایسی شہرت جس سے علم حاصل ہوجائے(7)۔
۴: اس فرد کا حسن ظاہری اور شریعت کی پابندی وغیرہ(8)۔
اور پهر فرماتے ہیں: علی الظاہر حسن ظاہر عدالت، تعبداً عدالت کا بیانگر ہے اگرچہ عدالت کا گمان یا علم حاصل نہ بهی ہو رہا ہو(9)۔
اسی طرح آپ(رح) نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک عادل دوسرے عادل کی غیبت کرے تو کیا غیبت کرنے والے کی عدالت ختم ہوجاتی ہے؟
فرماتے ہیں: اگر ان دونوں کی عدالت ثابت تهی تو جب تک ان میں سے کسی ایک کے فسق کا یقین نہ ہوجائے، دونون کی عدالت برقرار رہے گی۔ اور ان دونوں کے امور صحیح کہلائیں گے لیکن اگر معلوم ہوجائے کہ غیبت کرنے والا بغیر جواز کے غیبت کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے(10)۔
عدالت کا یہ مفہوم اگر چہ کسی فرد کی انفرادی عدالت کا بیانگر ہے لیکن مسئلہ عدالت پر غور وفکر نہ فقط یہ کہ اجتماعی موضوع سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کے لئے زمینہ ساز بهی ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا: شہوت اور غضب پر کنٹرول پانے کے بعد عدل وعدالت کے ذریعہ اسے معاشرہ میں بروئے کار آنا چاہئے اور ایسی عدل محور حکومت قائم ہو جس کے حکمران حق پر ہوں اور قوانین کے رعایت کرنے والے ہوں(11)۔
آپ(رح) اپنے الہی سیاسی وصیت نامہ میں عدالت کی اہمیت پر خاص توجہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدود، قصاص اور تمام تر سیاسی و اجتماعی مسائل میں ایسی عدالت پر بهروسہ کرنا چاہئے تا کہ کسی بهی سماج اور معاشرے سے کسی بهی طرح کے فساد سے بچا جا سکے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں عقل وعدل اور انصاف یا اس جیسی دیگر چیزوں کی رعایت کریں گے تو ایسا ہرگز نہیں کہ زمانہ گزرنے کے ساته ساته اس میں کہنگی آجائے گی(12)۔
حوالہ جات:
1ـ شرح نهجالبلاغه، ج6، ص37.
2ـ تحریر الوسیله، قم: ج1، مسألۀ 28 از فروع تقلید؛ ترجمۀ تحریر الوسیله، ج 1، ص12ـ
3ـ تحریرالوسیله، ایضاً؛ ترجمه تحریر الوسیله، ایضاً.
4ـ تحریر الوسیله، ایضاً، ص12، مسألۀ 29؛ ترجمۀ تحریر الوسیله، ایضاً.
5ـ تحریرالوسیله، ایضاً، ص9، مسألۀ 27؛ ترجمه تحریرالوسیله، ایضاً.
6ـ تحریرالوسیله، ایضاً؛ ترجمۀ تحریرالوسیله، ایضاً.
7ـ تحریرالوسیله، ایضاً؛ ترجمۀ تحریرالوسیله، ایضاً.
8ـ تحریر الوسیله، ایضاً؛ ترجمۀ تحریرالوسیله، ایضاً.
9ـ تحریرالوسیله، ایضاً؛ ترجمۀ تحریرالوسیله، ایضاً.
10ـ استفتائات، ج2، 1372، ص621.
11ـ شرح چهل حدیث، ص169.
12ـ صحیفه امام؛ ج21،ص45.
ماخذ: امام خمینی(رح) پورٹل