حکم اولی و ثانوی اور حکم حکومتی سے کیا مراد ہے اور ان میں آپس میں کیا بنیادی فرق ہے؟

احکام اولیہ و ثانویہ ثابت مصالح و مفاسد کہ دین میں مشخص ہیں کی بنیاد پر تنظیم ہوئے ہیں۔

جواب: اسلام میں خدا کی جانب سے قوانین و احکام فرد اور اجتماع دونوں کے مصالح اور مفاسد کے پیش نظر وضع کئے گئے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر کہ اگر کسی موضوع میں کوئی مصلحت پوشیدہ ہو جس کا تحصیل کرنا انسان کے لئے لازم ہے تو اس کو حکم وجود سے تعبیر کیاجاتا ہے) یعنی اس کا انجام دینا ضروری ہے (اور اگر اس میں کوئی مفسدہ ہو جس سے دوری اختیار کرنا انسان کے لئے لازم ہے تو اس کے لئے حرمت کا حکم جعل کرتے ہیں) یعنی انجام نہ دینا ضروری ہے (فقہاء اس طرح کے حکم کو حکم اولی یا اولیہ کہتے ہیں۔ لیکن اگر خاص حالات و شرائط) منجملہ اضطرار، حرج، ضرر وغیرہ (کا سبب ہوں کہ انسان احکام اولی پر عمل نہ کرسکے تو شارع ایک دوسرا حکم اس مورد میں مقرر فرماتا ہے جس کو حکم ثانوی اور یا ثانویہ کہتے ہیں۔ بعنوان مثال مردار کا گوشت کهانا بحکم اولی حرام ہے لیکن بحالت اضطرار) حکم ثانوی (جائز ہے۔ احکام اولیہ و ثانویہ ثابت مصالح و مفاسد کہ دین میں مشخص ہیں کی بنیاد پر تنظیم ہوئے ہیں۔ لیکن احکام حکومتی میں حاکم اور ولی امر مسلمین مصلحت کے پیش نظر امور کا ادارہ کرنےکے لئے کچھ اقدامات کرتا ہے۔ اس طرح کے احکام معاشرہ کے شرائط اور مصالح کے تابع ہوتے ہیں کہ غالباً غیر ثابت اور شرائط زمان و مکان سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان میں تغیر و تبدیلی ممکن ہے۔ احکام حکومت میں معیار، معاشرے کی مصلحت ہے۔

ای میل کریں