نبش قبر

کن موارد میں نبش قبر کرنا جائز ہے؟

جب میت کو دشمنی کی بناء پر یا جہالت یا فراموشی کی وجہ سے کسی ایسی جگہ دفن کردیا جائے

سوال: کن موارد میں نبش قبر کرنا جائز ہے؟

جواب: نبش قبر کئی موارد میں  جائزہے۔ 

اول  :  جب میت کو دشمنی کی بناء پر یا جہالت یا فراموشی کی وجہ سے کسی ایسی جگہ دفن کردیا جائے کہ جو یا تو خود مغصوب ہو یا اس کی منفعت مغصوب ہو ، اورمالک پر واجب نہیں  ہے کہ وہ مفت میں  یا عوض لیکر میت کے وہاں  باقی رہنے پر راضی ہو جائے، اگر چہ اولیٰ بلکہ احتیاط یہ ہے کہ میت کو اس جگہ رہنے دیاجائے، اگرچہ اس کے بدلے عوض لے لے ، خصوصا ًاس مقام پر جہاں  میت ، وارث یارشتہ دار ہو یا غلطی سے میت کو وہاں  دفن کردیا گیا ہو اورا گر مالک اجازت دے کہ میت کو اس کی زمین میں  دفن کیا جائے اور اس جگہ کو میت کے لئے  مباح قرا ردے تو پھر دفن کرنے بعد اسے اپنے اذن اور دفن کے مباح کرنے سے پھرنے کا کوئی حق نہیں  ہے ۔ ہاں  میت اگر کسی سبب کے ساتھ قبر سے خارج ہو جائے تو پھراس پر دوبارہ راضی ہونا اور اسی مکان میں  دفن کرنے کی اجازت دینا واجب نہیں  ہے ۔ بلکہ وہ اپنی اجازت سے پھر سکتاہے اور غصب شدہ کفن یاکسی اور غصب شدہ چیز کے ساتھ دفن کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی غصب شدہ جگہ میں  دفن کیا گیاہو ، پس اس غصب شدہ چیز کو لینے کے لئے اس کی قبر کھودنا جائز ہے اور اگرمیت کے اموال

میں  سے جیسے انگشتر یا اس کی مانند کوئی اور چیز کے ساتھ ہی دفن کر دی گئی ہو تو اسے لینے کے لئے وارثوں  کے لئے نبش قبر کا جائز ہو نا محل تامل وا شکال ہے۔ خصوصاً اس جگہ پر جہاں  وارثوں  کا بہت زیادہ نقصان نہ ہوتا ہو۔

دوم :غسل یا کفن یا حنوط کا تدارک کرنے کے لئے کہ جب اسے ان کے بغیر دفن کیا گیا ہو ، جب کہ ایسا کرنا ممکن بھی تھا تو ایسی صورت میں  قبر کا کھود نا جائز ہے ۔البتہ یہ تمام موارد اس وقت ہیں  کہ جب میت کابدن فاسدنہ ہو ا ہو اور اس کی بے حرمتی نہ ہو تی ہو اور اگر میت کو کسی عذر کی وجہ سے ان امور کے انجام دئے بغیر دفن کردیا  گیا ہو ، مثلا ًجب غسل کے لئے پانی نہ ملا ہو یا کفن یا کافور نہ مل سکا ہو اور دفن کر نے کے بعد یہ چیزیں  مل جائیں  تو پھر جو کچھ انجام نہیں  دیا گیا  ( مثلا غسل ) اس کا تدارک کر نے کے لئے نبش قبر کے جائز ہونے میں  اشکال و تامل ہے خصوصاً اگر پانی نہ مل سکاہو اور اسے غسل کے بعد تیمم کر ایا گیا ہو پھر دفن کردیا  گیا ہو اور پھر دفن کے بعد پانی مل جائے ، بلکہ بناء بر اقویٰ اس و قت غسل کا تدارک کرنے کے لئے نبش قبر جائز نہیں  ہے اور اگر اسے نماز کے بغیر دفن کردیا  گیا ہو تو اس صورت میں  نبش قبر قطعی طور پر جائز نہیں  بلکہ اس کی قبر پر ہی نماز پڑھی جائے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے ۔

سوم : جب حقوق میں  سے کسی حق کا ثابت کرنا اس کے جسد کو دیکھنے پر موقوف ہو  ۔ 

چہارم : جب اسے کسی ایسی جگہ دفن کردیا  گیا ہو جو اس کی بے حر متی کا باعث ہو ، مثلاً فاضل آب کے کنویں  یاکوڑاکرکٹ کی جگہ پر دفن کردیا  گیا ہو اور یہی حکم ہے جب اسے کفار کے قبر ستان میں  دفن کردیا  گیاہو ۔

پنجم  :  مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کر نے کے لئے جب کہ میت نے وصیت کی ہو اسے دفن کرنے کے بعد مشاہد مشرفہ کی طرف منتقل کیا جائے یاوصیت کی ہو کہ دفن سے پہلے ہی منتقل کیا جائے لیکن نا فرمانی یا فراموشی یا نادانی کی وجہ سے اس کی وصیت کی مخالفت کی گئی ہو اور اسے کسی اور جگہ دفن کردیا  گیا ہو یا اس نے اصلاً وصیت ہی نہ کی ہو تو بناء بر اقویٰ دوسری صورت میں  نبش جائز ہے اور پہلی اور تیسری صورت میں  اشکال اور تامل ہے اور دوسری صورت میں  فقط اس وقت جائز ہے کہ جب اس کے بدن میں  تبدیلی نہ آگئی ہو اور دوسری جگہ دفن کرنے کے قت تک اس کا بدن اتنامتغیر نہ ہو چکا ہو کہ جو بے حر متی اور اذیت کا موجب بنے۔

ششم : جب درندے ، سیلاب یا دشمن وغیرہ کی طرف سے میت کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو ۔   

تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 82

ای میل کریں