اگر امام حسین علیہ السلام کو اپنی شہادت کا علم تھا تو آپ کربلا کیوں گئے؟
کبھی کبھی حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ انسان اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر ممکنہ کام انجام دینے پر مجبور ہو جاتا ہے، حتیٰ اگر جانتا بھی ہو کہ اس کا انجام موت ہے۔ مجاہدین اسلام دفاع مقدس (ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ) کے دور میں بارودی سرنگوں کے علاقوں سے گزرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا نتیجہ شہادت ہے۔ لیکن چونکہ ان کا مقصد ’اسلامی نظام‘ کا دفاع تھا لہذا ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا کہ وہ ان بارودی سرنگوں کو پار کریں چاہے اس راہ میں ان کی جانیں بھی قربان ہو جائیں۔
امام حسین علیہ السلام کا کربلا کی جانب سفر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس لیے کہ اسلامی حکومت اور مسلمان معاشرے میں انحراف اور بے راہ روی اس حد تک پہنچ چکی تھی اگر آپ(ع) یہ عارفانہ قیام نہ کرتے اور آپ کے باوفا ساتھی اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو اسلام کا جنازہ نکل چکا ہوتا۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ جملہ اس دور کے اسلامی معاشرے کی بخوبی عکاسی کرتا ہے ’وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید‘‘ ( ایسے اسلام کو سلام اور خدا حافظی جس کی باگ ڈور یزید جیسوں کے ہاتھ میں ہو)۔ یہ ایسا انحراف اور ایسی گمراہی تھی جو امام حسین (ع) کی شہادت کے سوا قابل اصلاح نہیں تھی۔ لہذا نواسہ رسول نے شہادت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے اور اپنے اہل و عیال کے خون سے شجر اسلام کی ایسی آبیاری کی کہ تا قیام قیامت وہ ہرابھرا ہو گیا اور یزید جیسے اس کی جڑوں کو خشک کرنے میں ناکام رہ گئے۔