عہدہ

جمہوری اسلامی کی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں لوں گا

امام خمینی (رح) نے ایران میں داخل ہونے سے پہلے ایک انقلابی کونسل بنائی تھی

سوال: امام خمینی (رح) نے انقلاب سے پہلے کیوں کہا کہ میں جمہوری اسلامی کی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں لوں گا لیکن انقلاب کے بعد عملی طور پر تمام معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا؟

جواب: مندرجہ بالا سوال کے پہلے حصے کی دستاویزات اُس آخری  سوال کا جواب ہو سکتا ہے جس کو خمینی (رح) نے  10 آبان 57 کو گارڈین اخبار کے کے صحافی الزبتھ ترگود کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا۔

الزیتھ ترگود نے اپنے آخری سوال میں امام خمینی (رح) سے پوچھا: شاہ کے جانے بعد ایران میں واپس آنے کے بعد کیا آپ خود اسلامی جمہوری ایران کے راہنما نہیں بنیں گے؟

امام خمینی رح کا جواب: میں خود حکومت کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا لیکن حکومت بنانے کے لئے عوام کی راہنمائی کروں گا اور اُس کے شرائط کو لوگوں کے لئے بیان کروں گا۔(صحیفہ امام ج4 ص250)

پہلی بات یہ کہ امام (رح) نے اس بیان میں اپنی راہنمائی کے کردار کی نفی نہیں کی ان کی محصولات میں سے ایک کتاب ولایت فقیہ ہے جس کو 1348 میں تدریس کرتے تھے اس کتاب میں اسلام کی بنیاد پر نظام میں  قیادت کے کردار کو مٖفصل بیان کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہیکہ امام خمینی (رح) نے ایران میں داخل ہونے سے پہلے ایک انقلابی کونسل بنائی تھی تانکہ  اسلامی جمہوری حکومت کے بننے تک ملک تمام معاملات کو انجام دیں اسی طرح 16 بہمن 1357 کو  انقلابی کونسل کی تجویز پر مہندس بازرگان کو عبوری حکوت کا صدر بنایا اور حکومت کے تمام لوازمات اور بنیادی آئین بنانے کے لئے ایک اسمبلی بنانے کا حکم دیا اور 10 اسفند 57 کو عملی طور پر قم پہنچے تاںکہ ملک کی عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کی ہدایت کر سکیں اور انھوں نے صر ف راہنمائی اور نظارت کی۔

لیکن ملک کے حالات نے بھی ان کی مداخلت کو ناگزیر بنا دیا تھا  کیوں کہ انتہا پسند گروہ عبوری حکومت کو لیبرل حکومت مانتے تھے اور حکومت کے خلاف سخت موقف اپنایا ہوا تھا جبکہ ضد انقلاب خارجی عوامل کی وجہ سے ایران کو تقسیم کرنا چاہتے تھے اور آزادی، ترک، عرب اور بلوچ کے نام اسلحہ اُٹھا لیا اور ایک سانحہ وجود میں لایا لہذا خود عبوری حکومت اور انقلابی کونسل نے سمجھا کہ امام خمینی (رح) کی مداخلت کے بغیر ایسے حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو انجام نہیں دے سکتے۔

جب بنیادی آئین پر بحث ہوئی اُن ماہرین کے علاوہ جنکو لوگوں نے انتخاب کیا تھا  امام خمینی رح نے تمام  مفکرین، دانشور اور صاحب نظر حضرات سے گزارش کی کے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں تانکہ حدالامکان بغیر کسی نقص کے آئین بنایا جاے۔

لہذا  آئین ملک کے ماہرین اور تجربہ کار انسانوں کی زحمت کا نتیجہ تھا کہ جنہوں نے رہبری کے لئے نظارت اور راہنمائی کے علاوہ کچھ اہم ذمہ داریاں معیں کی جو امام خمینی رح کی مورد نظر تھیں جن میں کمانڈر-ان-چیف سمیت. کیونکہ ماہرین نے تسلیم کیا کہ ایک ایسے ملک میں جس نے جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا تھا، صدر کو کمانڈر انڈر چیف کی ذمہ داری دینا گویا اس کو ڈکٹیٹر بنانا ہے۔

اس بنا ہر جب لوگوں نے بنی صدر کو صدر کے طور پر انتخاب کیا امام خمینی (رح) نے اس عہدہ اور ذمہ داری  کو صدر کے حوالے کیا البتہ جنگ شروع ہونے کے بعد بہت سارے کمانڈروں کا یہ نظریہ تھا کہ صدر اس ذمہ داری کو نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا لھذا امام خمینی رح مجبور ہوے خود اس منصب کو سنھبالیں۔

اسی طرح ہم امام علی علیہ السلام کی سیرت میں دیکھتے ہیں بہت زیادہ کوشش کرتے تھے کہ حکام تجربہ حاصل کریں اور ان کے نظریہ کے بغیر معاملات کو آگے بڑھائیں۔

یہاں تک کہ جنگ جیسے اہم معاملہ میں بھی جہاں کمانڈر ان چیف کے منصب پر خود رہبر فائز تھے لیکن پھر بھی ماہرین جنگ کے نظریات کو اولویت دیتے تھے مگر یہ یقین حاصل کر لیتے تھے کہ اگر کوئی حکم صادر نہ کریں تو کوئی مشکل پیش نہیں آے گی جیسے کے آبادان کہ گھراو توڑنے کے لئے انھوں نے خود حکم نہیں دیا تھا یہ بات واضح ہیکہ فوجیوں کو عام انسانوں کے لئے جان قربان کرنے کا حکم موثر نہین ہوگا۔

مندرجہ بالا نکات جو اس وقت کے حالات کے بارے میں تھے اس سے امام خمینی (رح) کے اس جملہ جس میں آپ نے فرمایا تھا حکومت کو اپنے اختیار میں نہیں لینا چاہتے اور یہ  کہ آئین نے کچھ ذمہ داریاں رہبری پر عائد کی ہیں اور اسی طرح بعض معاملات میں امام رح مجبور ہوے خود مداخلت کریں کوئی ان میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔

ای میل کریں