دعاؤں کی اجابت اور قبولیت کا مہینہ

اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو جنگ کرنے پر مجبور کریں اور وہ جنگ کا آغاز کریں

ID: 54595 | Date: 2018/07/15

ذی القعدہ کا مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جو جاہلیت کے زمانے میں بھی محترم جانا جاتا تھا اور اسلام نے بھی اسے محترم جانا ہے۔ یہ قمری مہینوں کا گیارہواں مہینہ ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ هے جس میں اسلام کے دشمنوں سے بھی جنگ کرنا حرام ہے۔ اس کا عصر جاہلیت میں بھی کافی پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا۔ اس میں جنگ و جدال اور خونریزی حرام جانی جاتی تھی۔ مگر یہ کہ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو جنگ کرنے پر مجبور کریں اور وہ جنگ کا آغاز کریں تو پھر دفاعی صورت میں اپنا بچاؤ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: "دفاعی جنگ میں جب بھی دفاع واجب ہوجائے، دفاع کیا جائے، اگرچہ ماہ حرام میں ہو۔"


اس ماہ میں خانہ خدا کعبہ مکرم کے زائرین دنیا کے گوشہ و کنار اور اطراف و اکناف سے مکہ اور مدینہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ کو دعا کے قبول ہونے والا مہینہ کہا گیا ہے۔ شاید اس ماہ میں جنگ بندی کا ایک مقصد یہ ہو کہ معاشرہ میں سکون و قرار ہو  اور حج و عبادت کی توفیق حاصل ہو۔


اس ماہ میں ایک دن پیغمبر اکرم (ص) نے گھر سے نکلے اور فرمایا: اے لوگو! کون توبہ کرنا چاہتا ہے؟ سب نے کہا: ہم سب۔ اس وقت رسولخدا (ص) نے فرمایا: "غسل کرو، وضو کرو اور چار رکعت نماز پڑھو۔ پھر نماز تمام کرنے کے بعد 70/ بار استغفار اور یہ دعا پڑھو: "لا حول و لا قوة الا باللہ العلی العظیم" اس کے بعد یہ دعا پڑھو: " یا عزیز یا غفار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المومنین و المومنات فانہ لایغفر الذنوب الا انت" اس کے بعد فرمایا: جو یہ عمل کرے گا اس کے لئے آسمان سے آواز آئے گی: "اے بندہ خدا! تیری توبہ قبول ہوئی، تیرے گناہ بخشے گئے لہذا پھر سے اپنی کردار سازی کرو۔"


روایت ہے کہ اگر کوئی حرمت والے مہینوں میں تین دن پے در پے روزہ رکھے تو اس کے لئے 90/ سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔


جب علم و ادب سے عاری عصر جاہلی کے لوگ اس ماہ کی حرمت کا اس درجہ پاس و لحاظ رکھتے تھے تو ہم مسلمانوں کو اس کی تعظیم و تکریم اور احترام و اکرام میں کوئی کسر نهیں چھوڑنی چاہیئے اور اس ماہ کی برکتوں، سعادتوں اور فیوضات سے بہرہ مند ہونا چاہیئے۔ خداوند عالم کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں عقل و شعور جیسی عظیم نعمت سے نواز کر ہمیں ہر پل اپنی نت نئی نعمتوں کے استقبال کی دعوت دیتا ہے اور ہمیں معاف کرنے، ہمارے گناہوں کو بخشنے اور اس کی پردہ پوشی، انسان بننے اور کردار سازی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اپنی عقل اور خداداد استعداد کا استعمال کرنا چاہئے، ہمیں اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا صحیح فائدہ اٹھانا چاہیئے نہ کہ ہم اپنی اشرفیت اور افضلیت کا ڈھول پٹتے رہیں، جبکہ ہماری فضیلت و برتری، علم و ادب، شعور و آگہی، خدائی اصول و قوانین کی پابندی کرنے میں ہے۔ نعمتوں کا تعلق بھی ہماری ہی ذات سے ہے اور فضیلتیں بھی، ہم انسانوں ہی کے لئے ہیں۔ لیکن برتری کے معیار کے مطابق عمل کرنے سے فضیلت حاصل ہوتی ہے اور انسان خدا کا مقرب اور محبوب بندہ بنتا ہے۔ ہماری فضلت اور ہمارا کمال خدا کی عبودیت، اس کی بندگی، اس کے رسول (ص) اور اس کے نمائندوں کی فرمانبرداری میں ہے۔ اس کی اطاعت میں ہے۔ کاش ہم غور کرتے اور تنہائی میں اپنے خالق و مالک کے بارے میں تدبر اور تفکر کرکے کہ اس نے ہمیں کیا بنایا، کیوں بنایا، ہمارے اور کیا ذمہ داری عائد کی ہیں؟ وہ کون ہے؟ کتنا رووف و مہربان ہے؟ اسے ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے، وہ خالق ہے هم مخلوق ہیں، وہ رازق ہے ہم مرزوق، وہ رب ہے ہم مربوب، وہ معبود اور اللہ ہے ہم اس کے بندہ اور بچاری ہیں۔


پھر بھی وہ هماری نجات اور فلاحی کے بہانے بتاتا اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کی شکر گزاری کے لئے ہمارا وجود ہی کافی ہے اگر ہم تمام عمر شکرگزاری کرتے رہیں تو اس کی خلقت کا حق ادا نہیں کرسکتے۔