عشق کا سفر تو خاک سے افلاک کی طرف اور عالم مادہ سے عالم ملکوت کی جانب ہے۔ جہاں پر معشوق سے وصل کی گهڑیاں نصیب ہوتی ہین۔ ہاں حسین(ع) کے دسترخوان پر امام کے ساته بیٹهنا، علی(ع) کی زبان سے حدیث سننا اور پیغمبر(ص) کے ہم نشیں ہونا اور ان سے ہم سخن ہونا کتنا خوبصورت ہے۔
اس انسان کی پاک زندگی کے بارے میں کہی گئی اور ناکہی گئی باتیں اتنی زیادہ ہیں جو ایک مقدمے یا کتاب میں نہیں سمیٹی جاسکتیں۔ وہ انسان جس نے اپنی نتیجہ خیز زندگی خمینی کبیر کے مقدس راستے اور انقلاب اسلامی کے اصولوں کا دفاع کرنے میں گزار دی، ان باتوں کو ایک مقدمہ میں بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ کسی مناسب وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بات بهی طبیعی ہے کہ کوئے خمینی کے عاشقوں کیلئے بهی یہ اسی طرح مفید ہوگا۔
کئی بار اور شاید دس بار سے بهی زیادہ حضرت امام خمینی(رح) نے مختلف موقعوں اور جگہوں پر مجه سے فرمایا: "حسن باپ کی خدمت کرنا اپنے بابا سے سیکهو" میرے خیال میں یہ ایک مختصر سا جملہ ہی اس بات کے بیان کیلئے کافی ہے کہ آپ اپنے پیارے بیٹے سے پوری طرح راضی تهے۔ یہی جملہ ان دونوں رحلت کر جانے والے عاشق ومعشوق کے راز کو سمجهنے کیلئے کافی ہے۔ ہمیں یہ بهی معلوم ہے کہ یادگار امام کی محبوبیت کن عظمتوں کی بنیاد پر تهی۔ کون سے ایسے فضائل تهے جن کی وجہ سے ایران کی قدر شناس قوم نے ان کے سوگ میں اتنے عظیم غم کا مظاہرہ کیا۔
حقیقی بات تو یہ ہے کہ امام(ع) کی یہ محبوب نشانی اس ذمہ داری کو نبهانے میں بے نظیر رہی۔ انہوں نے دن رات ان تهک کوشش کی اور اپنی پوری زندگی اور ہستی اس راہ میں وقف کردی۔ بہت سی مشکلات اور مختلف طرح کی رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے رہبر انقلاب اور معاشرے کے مختلف افراد جو کہ مختلف نظریات کے حامل تهے کے درمیان ایک مطمئن، محکم اور وسیع رشتہ قائم کیا۔ اسی بناپر انقلاب اسلامی کی تاریخ کے اس مرحلے سے متعلق بے شمار مسائل، امام خمینی(رہ) سے ان کے مشورے اور اپنی ذمہ داری معلوم کرنا اور امام خمینی(رح) کے جوابات ان دونوں عزیزوں کے درمیان روبرو رابطے اور بلاواسطہ ملاقاتیں انجام پائی ہیں۔
انقلاب اسلامی کے رہبر کبیر کے احکام اور ہدایات حکومت کے ارکان، مختلف وزارت خانوں اور اداروں تک پہنچانے میں حجت الاسلام والمسلمین حاج سید احمد خمینی(رح) کا کردار اس طرح تها کہ ابهی تک ان کے کئی خطوط اور ہاتهوں سے لکهی ہوئی عبارات کئی خطوں کے ذیل میں نیز حکومتی کارندوں کی درخواستوں پر اور اس نظام مملکت کے مختلف اداروں کی طرف سے وصول ہونے والی درخواستوں پر موجود ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے وہ امام(رح) کے جوابات اور احکام کو کس طرح مو بہ مو پوری دقت، امانتداری اور پوری ذمہ داری سے متعلقہ لوگوں تک پہنچاتے تهے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی(رہ) نے اپنی اس پیاری نشانی کو مخاطب کرتے ہوئے چند ایک تفصیلی خطوط لکهے ہیں جو کئی دقیق عرفانی اور اخلاقی نکات اپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ سیکڑوں دروس اور سبق آموز نکات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حضرت امام(رہ) اپنی پیاری یادگار میں ان اخلاقی وعرفانی اسرار اور معانی کو دریافت کرنے کی صلاحیت موجود پاتے تهے۔ اپنے پیارے بیٹے کی سیاسی راہ ورسم کے دفاع پر حضرت امام(رہ) کی واضح گواہی موجود ہے۔
امام خمینی(رح) ایک خط میں لکهتے ہیں:
میں خدا کے حضور میں گواہی دیتا ہوں کہ انقلاب کی ابتدا سے آج تک اور انقلاب سے پہلے اس زمانے سے کہ جب (احمد) اس طرح کے سیاسی مسائل میں داخل ہوئے ہیں میں نے انقلاب اسلامی کے مخالف کسی حرکت یا بات کا مشاہدہ نہیں کیا۔ تمام مراحل میں انہوں نے انقلاب کی پشت پناہی کی ہے۔ اس عظیم انقلاب کی کامیابی کے مرحلے پر بهی یہ میرے معاون اور مددگار تهے اور ہیں۔ انہوں نے ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا جو میری مرضی کے خلاف ہو۔۔۔
دوسری جگہ آپ(رہ) فرماتے ہیں:
میں نے کئی بار یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے کسی شخص کے ساته بهی، چاہے وہ کسی مرتبے کا بهی ہو بهائی چارے کا پیمان نہیں باندها ہے، میری دوستی ہر فرد کے عمل کے صحیح ہونے میں پوشیدہ ہے۔
حضرت امام(رہ) کے ایک تفصیلی اور شائع شدہ خط کے ذیل میں جس میں رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے پوری وضاحت سے اپنی اس یادگار کے حق میں دفاع اور انقلاب اسلامی میں ان کے کردار کو واضح کیا ہے کے بارے میں میرے والد بزرگوار نے "موسسہ تنظیم ونشرآثار امام خمینی(رح)" کے قائم مقام کو یہ لکها:
جناب آقائے حمید انصاری
۔۔۔ انہوں نے چونکہ میری مظلومیت دیکهی ہے لہذا مجبوراً انہوں نے مظلوم کے دفاع کے عنوان سے یہ خط لکها ہے، لہذا یہ خط شامل نہ کریں جو کچه میرے بارے میں لوگوں نے کہا ہے اسے کہنے دیجئے، خدا انسان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔
احمدخمینی
۳ـ۱۲ـ۱۳۷۳ه۔ق [۲۲ـ۲ـ۱۹۹۴]
والسلام علی من اتبع الهدیٰ