امام خمینی(رہ) کے چاہنے والے ایران اور دیگر ممالک سے اپنے عزیز رہبر وقائد سے ملنے کی غرض سے فرانس کا رخ کرتے ہیں۔ فرانس کی حکومت جو دیگر مغربی ممالک کی طرح پہلوی سلطنت وحکومت کی حامی شمار ہوتی تهی، مشکلات سے روبرو ہوئی۔ ۱۶/ مہر ۱۳۵۷ ہجری شمسی (8 اکتوبر 1978ء) کو ایران کے تقریباً سو مذہبی رہنمائوں نے فرانس کے صدر مملکت والری زیسکاردسٹن سے ٹیلیگراف کے ذریعہ مطالبہ کیا کہ وہ امام کی کسی بهی فعالیت میں مانع نہ ہو۔ مجموعی طور پر پوری دنیا امام خمینی(رہ) کے لئے آزادی عمل کا مطالبہ رکهتی تهی۔
تمام تر مطالبات کے باوجود فرانس کی حکومت نے امام تک یہ پیغام پہنچایا کہ انٹرویو کی انجام دہی، بیانات کا دینا، پیرس کی مساجد میں نماز جماعت کا اہتمام اور اجتماعی پروگرامز میں آپ کی شرکت ممنوع ہے۔ امام بزرگوار اس عہد کو پورا کرنے میں منہمک تهے جس کا وعدہ انہوں نے خداوند عالم اور اپنی عوام سے کر رکها تها۔ فرانس کی حکومت نے امام کو اس پروگرام میں جانے سے روکا جو یورپ میں موجود ایرانی اسٹوڈنٹس کی اسلامی کمیٹیوں کی دعوت پر پیرس کے سٹی سنٹر میں منعقد ہونے والا تها۔
(تقویم تاریخ انقلاب اسلامى ایران، ص 156 به نقل از خبرگزارى فرانسه 24/7/57)
لیکن ان سب کے باوجود امام راحل اس تحریک سے متعلق، اپنے پیغامات اور اپنے احباب کے درمیان ہر روز کی جانے والی تقاریر کے ذریعہ ایران اور دنیا والوں تک منتقل کرتے رہتے تهے۔
پورے ایران میں ہڑتال جاری ہے اور بہت سارے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں میں یا مکمل طور پر چهٹی ہے یا چهٹی جیسا ماحول ہے۔ حکومت عملی طور پر بیکار ہو چکی ہے اور یہاں تک کہ خود ان کے کابینہ میں بهی آپسی نزاع واختلافات کا شکار ہو چکے ہیں۔ قرہ باغی جو کہ شریف امامی کابینہ میں وزیر داخلہ تها، اپنی کتاب "اعترافات ژنرال"میں لکهتا ہے: ملک میں اگر چہ مارشل لا کا اعلان ہو چکا تها پهر بهی دن بہ دن احتجاجات اور ہڑتالوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تها۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق چونکہ یہ احتجاجات بعض قصبوں اور شہروں میں چونکہ عمومی سطح پر ہو رہے تهے لہذا دهیرے دهیرے ان میں بعض حکومت کے اعلی عہدہ دار اور چیف کمشنرز نے بهی ان میں شرکت کی تهی۔ تہران میں بهی قانون کی بدحالی اور مارشل لا کے قوانین لاگو نہ ہونے کے سبب، موصولہ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر حکومت کے افراد حتی وزرات خانوں میں مشغول عملہ بهی ان احتجاجات میں عوام کا ساته دیتا۔
فضل اللہ زاہدی کا بیٹا اردشیر زاہدی جو کہ ۲۸ مرداد ماہ (19 اگست) کے فوجی انقلاب میں ایک اہم موثر نام تها اور جو امریکہ میں ایران کا سفیر تها؛ ایران آتا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اپنی سرکاری فائلس شاہ تک پہنچانے کے بعد وہ ایک بار آقای سید کاظم شریعتمداری سے ملاقات کو بهی جاتا ہے۔
انٹرنیشنل کیہان {انگریزی} ۲۳ مہر ۱۳۵۷ ہجری شمسی (15 اکتوبر 1978ء) کو زاہدی کے سفر کی اطلاع دینے کے ساته شاہ کے ساته اس کی ۱۴ میٹنگس، داکٹر امینی، اردشیر زاہدی اور جنرل جم کی تصاویر {یہ وہ تین نام ہیں جن کے نام وزیر اعظم کے ہونے والے الیکشن میں امیدوار کے عنوان سے زبان زد خاص وعام تهے} شایع کرتا ہے۔ اس نیوز پیپر میں ڈاکٹر امینی کی تصویر کے نیچے لکها تها: «صبح کے امیدوار»،اردشیر زاہدی کی تصویر کے نیچے لکها تها: «ظہر کے بعد کا امیدوار»،اور جنرل جم کی تصویر کے نیچے لکها تها: «رات کے امیدوار»! یہ رپورٹ ان دنوں خود وائٹ ہاؤس اور پہلوی حکومت کی بدحالی وخستگی کی حکایت گر ہے۔
یہ بات ذکر کردینا یہاں ضروری ہے کہ امام خمینی(رہ) سلطنت کی نجات کے تمام ان راستوں پر تالے ڈال دئیے تهے کہ جو امریکہ و مغربی ممالک کی دلی تمنا تهے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حالات کسی بهی وجہ سے ۲۸ مرداد ۱۳۳۲ ہجری شمسی (19 اگست 1953ء) سے ہرگز قابل مقائسہ نہیں ہیں۔
امام خمینی(رہ) اپنی دوسری تقریر (صحیفه امام، ج4، ص 37-41) ۲۴ مہر ۱۳۵۷ ہجری شمسی (16 اکتوبر 1978ء) کو کہ جب خود آپ ہی کے ذریعہ ۱۷ شہریور کے شہداء کے چالسویں کی مناسبت سے عمومی عزا کا اعلان کیا گیا تها؛ آپ پہلوی سلطنت کے پچاس سالہ گهٹن بهرے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جملہ صراحتاً بیان فرماتے ہیں کہ سلطنت وپادشاہی ظلم واستبداد اور جبری حکومت و ڈکٹیٹر شپ کے مترادف ہے۔
(صحیفه امام؛ ج4، ص38) آپ نے اس سلطنتی نظام کی مخالفت کی اور دشمنوں کی سازشوں پر پانی پهیرتے ہوئے انہیں حذف کر بیٹهے ۔
امام خمینی(رہ) نےامریکہ کے ذریعہ شاہ کے جرائم کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکہ کے صدر مملکت اور دیگر مغربی ممالک کے انسانی حقوق سے متعلق کهوکهلے نعروں کو دنیا والوں کی غفلت میں گرفتار ہونے کے لئے فریب بتایا۔ رہبر انقلاب کی تقریر کے دوسرے حصہ میں ایران کے داخلی مسائل، جیسے شاہ کی حکومت میں تیل کی بربادی اور پورے ایران کا قیام قابل غور ہے۔ امریکہ کو اپنے ناپاک عزائم میں ملنے والی ناکامی، کامیابی کا نوید سناتی ہے اور سب سے آخر میں امام امت بیرون ملک میں مقیم ایرانی حضرات کی اسلامی انقلاب کے تئیں اور ایرانی عوام کے قیام کی حقانیت کی ترویج کے لئے ان کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
امام بزرگوار نے ۲۴ مہر ۱۳۵۷ ہجری شمسی (16 اکتوبر 1978ء) کو حاضرین کے لئے تین بار تقریر فرمائی۔ جن میں سے پہلی اور دوسری تقاریر کے مطالب ہم نے ذکر کئے لیکن چونکہ تیسری تقریر پر مشتمل کیسٹ کی کیفیت نامطلوب تهی لہذا اسے یہاں نہیں ذکر کر سکے۔ انشاء اللہ جیسے ہی سننے کے قابل اچهی کیفیت میں کہیں سے کیسٹ موصول ہوتی ہے تو اس کے مطالب بعد میں ہم ضرور اضافہ کریں گے۔
منبع: کوثر، ج1، ص 493-495 و 503-505