بسمہ تعالی
انا للہ وانا الیہ راجعون
ماہ ذی القعدہ الحرام ۱۳۹۷ ہجری کی نویں تاریخ کو میرا نور نظر اور لخت جگر اس دار فانی سے کوچ کر گیا اور جوار رحمت الہی کا راہی ہوا۔
اللهم ارحمه و اغفر له و أسکنه الجنة بحق اولیائک الطاهرین- علیهم الصلاة و السلام
اسی منابست سے آیۃ اللہ محمد رضا حکمت نے جماران نیوز ایجنسی سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا:
میں آقا مصطفی خمینی کے جلسات درس میں شریک اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت سے مخصوص دنوں میں آپ کے ہمراہ نجف سے کربلا دیگر افراد کی معیت میں پا پیادہ زیارت سے مشرف ہوتا تها۔
آقا مصطفی کی علمی توانائی کافی زیادہ تهی۔ آپ کی استعداد و صلاحیت اور آپ کا حافظہ حقیقت میں قابل مدح تها۔ امام خمینی(رح) کے دوست اور صاحب علم جناب آیۃ اللہ مرحوم سید حسن بجنوردی(رہ) سید مصطفی خمینی کے بارے میں فرماتے تهے: آقا مصطفی کی علمی صلاحیت، اپنی عمر کے لحاظ سے آیت اللہ خمینی کی علمی صلاحیت سے کہ جب امام اس عمر کے تهے؛ کہیں زیادہ ہے!
مرحوم آقا مصطفی خمینی کی علمی منزلت تهی کہ نجف کے تمام اعاظم آپ کی علمی صلاحیت کو قبول کرتے تهے۔ اسی طرح امام خمینی(رہ) کے درس میں اصل اشکال کرنے والوں میں سرفہرست آقا مصطفی کا ہے۔ امام بهی ان اشکالات کو بغور سنتے۔ مرحوم مصطفی خمینی فرماتے تهے کہ مجهے آیت اللہ خمینی سے تین طرح کے سوالات کرنے رہتے ہیں:
ایک سوال اس وقت کرتا ہوں جب مطالب حاضرین کے لئے واضح و روشن اور شفاف نہ ہوئے ہوں، اس وقت میرے پوچهنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آغا مزید وضاحت فرمائیں تا کہ اس طرح مطالب سننے والوں کے لئے بخوبی واضح ہو سکیں۔
دوسرا سوال تب کرتا ہوں کہ جب خود میں بیان شدہ مطلب کو درک نہ کر سکا ہوں اور مطلب کے وضوح کی خاطر سوال پیش کرتا ہوں۔
سوال کرنے کا تیسرا مرحلہ تب پیش آتا ہے کہ جب میں سمجه لوں کہ حضرت آغا کے پاس مورد نظر بحث پر کافی زیادہ مطالب ہیں اور ایسے موقع پر میرا سوال اس بحث کی توضیح میں آپ کی ترغیب کا سبب قرار پائے گا۔
جب امام خمینی(رہ) علمی لحاظ سے مطالب بیان فرماتے تو آپ کے مطالب قابل استفادہ اور نہایت لطیف ودقیق ہوا کرتے تهے۔
مرحوم آقا مصطفی خمینی نے برسہا برس تک اصول کے دروس دئیے۔ اسی طرح آپ درس تفسیر دیتے جو تقریباً ہفتہ میں ایک بار ہوتا تها۔ البتہ آپ نے فقہ بیان نہیں کی لیکن اصول اور تفسیر کے دروس بیان کئے۔
آپ نہایت منکسر المزاج تهے۔ بالخصوص زیارت کے وقت آپ کا تواضع اور انکسار قابل دید ہوا کرتا تها۔ ایسا معلوم و محسوس ہوتا گویا آپ امام معصوم کو دیکه رہے ہوں۔
جس رات آقا مصطفی کا انتقال ہوا میں شاید آخری فرد تها جس نے آپ سے شیخ انصاری مسجد کے سامنے خدا حافظی کی ہو۔ آپ کا گهر مسجد کے سامنے واقع گلی میں تها۔ آپ کے جانے کے بعد میں بهی اپنے گهر کی جانب چل پڑا۔ اگلے روز صبح میں ایک تشییع جنازہ ہونی تهی جس کے سبب دروس کی چهٹی تهی۔ میں تشییع کے لئے بہبہانی مسجد گیا، تب میں نے غور کیا کہ میرے ساتهیوں میں سے وہاں کوئی موجود نہیں ہے!
اسی اثنا میں ایک دوست {خداوند عالم ان پر رحمت نازل کرے} آیا اور کہنے لگا: یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے بتایا کہ تشییع جنازہ میں شرکت کے لئے۔ تب اس نے بتایا: کیا تمہیں نہیں پتا کہ آقا مصطفی کی حالت سیرئس ہے اور انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا ہے؟! وہاں تمام دوست تمہارا بهی انتظار کر رہے ہیں۔ مجهے اس وقت تو ان باتوں کا جیسے یقین ہی نہیں ہو رہا تها! کچه جیسے سمجه میں ہی نہ آرہا ہو، فوراً گاڑی پر بیٹها اور ہاسپٹل کی طرف چل دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو کیا دیکها کہ آیۃ اللہ بجنوردی، مرحوم رضوی داماد کے ساته اور آیۃ اللہ امینی ہاسپٹل کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹهے ہوئے ہیں۔ مجهے دیکهتے ہی انہوں نے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ میں نے بتایا کہ مجهے ابهی ابهی پتا چلا۔ آقا مصطفی کیسے ہیں؟ ان کی طبیعت کیسی ہے؟ تب انہوں نے بتایا کہ انتقال کر گئے اور جنازہ میڈیکل کی قانونی کاروائی کے لئے لے جایا گیا ہے۔
میں وہاں پہنچا لیکن چونکہ کام ختم ہو چکا تها تابوت کو جنازہ اٹهانے کے لئے لائے تا کہ کربلا لے جایا جا سکے۔ تابوت میں جنازہ رکهتے وقت آقا مصطفی کے بایاں پیر میں نیل تها اور صرف انگوٹها زرد تها اور داہنا پیر بهی نیلا ہو رہا تها۔ اس وقت مجهے یقین ہوگیا تها کہ آپ کو زہر دیا گیا ہے کیونکہ یہ رنگ اور یہ کیفیت مسمومیت کی نشانگر ہے۔
تشییع جنازہ اور متعدد مجالس نیز ایصال ثواب کے بعد میں مرحوم آیۃ اللہ خاتم کے ساته حضرت امام کی نیابت میں ان بزرگ علماء کے تقدیر وتشکر کے لئے گیا جنہوں نے ان پروگرامز میں شرکت فرمائی تهی۔ ان ملاقاتوں میں نجف کے بزرگ عالم شیخ علی کاشف الغطاء سے ملاقات ہوئی جن کا حکومت میں بهی عمل دخل تها اور ایک با اہمیت شخصیت شمار ہوتے تهے۔ شیخ کاشف الغطاء نے کہا کہ ایک ڈاکٹر نے صاف کہا کہ اگر حضرت امام اجازت دیں تو میں واضح کر دوں کہ آقا مصطفی کو زہر دیا گیا ہے! لیکن امام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس اعتبار سے ہمیں آقا مصطفی کی مسمومیت اور مظلومانہ شہادت پر یقین کامل ہے۔
مرحوم حاج آقا مصطفی انقلاب کے طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بهی درحقیقت تاریخ انقلاب کے لحاظ سے اور انقلاب کے تئیں آپ کے خدمات کے اعتبار سے مظلوم رہے ہیں۔ اگر اس دور کے حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ پہلوی حکومت سے ٹکرانا کتنا سخت اور دشوار کام تها کیونکہ آپ نے پوری عمر امام کی حمایت کی اور سید مصطفی، امام خمینی کے داہنا بازو شمار ہوتے تهے۔ اسی لئے اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ حکومت وقت تصور کر رہی تهی کہ اگر آقا مصطفی کو شہید کردیا جائے تو امام کا یہ انقلاب متوقف ہوجائے گا! لہذا اس بنا پر انہوں نے یہ سازش رچی۔
لیکن جیسا کہ حضرت امام نے سید مصطفی خمینی(رہ) کی شہادت کے چند دنوں بعد اپنے درس کے آغاز میں آقا مصطفی کی شہادت کو لے کر اسے الطاف الہی شمار کیا۔ کچه عرصے بعد ہمیں اس خفی الطاف الہیہ کا ادراک ہوا کہ درحقیقت آپ کی شہادت ایران میں انقلاب کا پیش خیمہ قرار پائی اور انقلاب کی کامیابی شہید مصطفی خمینی کے خون کی مرہون منت ہے۔
[مذکورہ تقریر ۱۰ /آبان ۱۳۵۷ ہجری شمسی کو ہوئی۔ جسے صحیفہ امام ج۳/ص۲۳۴ تا ۲۵۲/ بطور مفصل پڑها جا سکتا ہے]