احمد متوسلیان نے آپریشن بیت المقدس کے تیسرے مرحلے میں دشمن پر حملے سے پہلے اپنی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
بهائیو! ہمارا ارادہ ہے کہ کچه دن کے اندر خرمشہر کو دشمن کے چنگل سے آزاد کروائیں۔ اس وقت ہماری پوزیشن وہی ہے جو کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتهیوں کی تهی۔ یعنی یہاں بهی عاشورا ہے۔
بسیجیو! آپ زیارت پڑهتے وقت امام حسین علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: اگر ہم کربلا میں ہوتے تو امام اور ان کے ساتهیوں کے نصرت کرتے تو جان لیں یہاں کربلا ہے اور آج کا دن عاشورا۔
احمد متوسلیان نے اپنی کلاشنکوف نکال کر شہادت تک ثبات قدم کا مظاہرہ کیا اور دوسرے سپاہیوں نے بهی ان کے ساته بلند حوصلوں کے ساته پایداری کا ثبوت دیا اور اہواز - خرمشہر ہائی وے کو دشمن کے قبضہ سے بچا لیا اور آخر کار ۳ خرداد ۱۳۶۱ (24/5/1982ء) کو لشکر رسول اللہ(ص) کی بٹالین ۲۷ کے جوان مجاہدوں نے سردار احمد متوسلیان کی قیادت میں فوج کی دوسری ٹکڑیوں کے ساته خرمشہر کی پاک سرزمین پر قدم رکها۔
احمد نے اسی دن شام کے وقت خرمشہر کی جامع مسجد کے سامنے بسیجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اگر چہ عزیزوں کے فراق نے ہمارے دلوں کو داغدار کردیا لیکن خدا کا شکرگزار ہے کہ ان کا خون رنگ لایا اور آج ہم نے خرمشہر کو آزاد کراکے امام کے دل کو خوش کردیا۔