علامہ اقبال نے امام خمینیؒ کی پیدائش سے کئی سال قبل ملّتِ ایران کو امام خمینیؒ کی بشارت دی کہ میں وہ مرد دیکه رہا ہوں جو تمهاری غلامی کی زنجیروں کو توڑنے آرہا ہے۔۔
اے جوانانِ عجم
چوں چراغِ لالہ سوزم در خیابانِ شما
اے جوانانِ عجم جانِ من و جانِ شما
اے جوانانِ عجم! مجهے اپنی اور تمہاری جان کی قسم ہے کہ میں تمہارے چمن میں لالہ کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔
غوطہ ہا زد در ضمیرِ زندگی اندیشہ ام
تا بدست آوردہ ام افکارِ پنہانِ شما
میری سوچ نے زندگی کے ضمیر میں بہت غوطے لگائے ہیں، تب کہیں جا کر مجهے تمہارے پوشیدہ افکار کا حصول ہوا ہے۔
مہر و مہ دیدم نگاہم برتر از پرویں گذشت
ریختم طرحِ حرم در کافرستانِ شما
میں نے سورج اور چاند کا گہرا مشاہدہ کیا، حتیٰ کہ میری نگاہ ستاروں کے جهرمٹ سے بهی آگے نکل گئی۔ (اس گہرے سوچ بچار کے بعد) میں نے تمہارے کافرستان میں حرم کی بنیاد رکه دی ہے۔
تا سنانش تیز تر گردد فرو پیچیدمش
شعلہ اے آشفتہ بود اندر بیابانِ شما
تاکہ اُس آشفتہ شعلے کی نوک اور تیز ہو جائے جو تمہارے بیابان میں اب تک آوارہ تها، میں نے اسے یکجا کر کے لپیٹ لیا ہے۔ (یعنی تمہارے پراکندہ خیالات کو یکجا کر لیا ہے تاکہ اُن کی توانائی اور زیادہ ہو جائے۔)
فکرِ رنگینم کند نذرِ تہی دستانِ شرق
پارۂ لعلے کہ دارم از بدخشانِ شما
تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکرا میرے پاس ہے اُسے میری رنگین فکر مشرق کے تہی دست لوگوں کو نذر کر رہی ہے۔
می رسد مردے کہ زنجیرِ غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما
وہ مرد آ رہا ہے (یا آنے والا ہے) جو غلاموں کی زنجیریں توڑ کر اُنہیں آزادی دلائے گا۔ میں نے تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے اُسے دیکها ہے۔
حلقہ گردِ من زنید اے پیکرانِ آب و گل
آتشے در سینہ دارم از نیاکانِ شما
اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو! آؤ میرے گرد حلقہ بناؤ، میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے۔
ماخذ: زبور عجم
بشکریہ انجمن محبان آل یاسین(ع)