امام خمینی(رہ) کا خط استاد حکیمی کے نام
بسمہ تعالی
جناب مستطاب ثقۃ الاسلام محمد رضا حکیمی دامت افاضاتہ
اگر چہ جناب آزرم سے توفیق ملاقات نہیں ہوئی لیکن کسی حد تک ان کے جذبات سے آشنا ہوں۔ پہلے بهی، عراق میں منتقل ہونے کے بعد، ان کے کچه اشعار سنے تهے جن سے کسی حد تک ان کے افکار سے آگاہی ہوئی۔ اب نیز ان کے بلند مرتبہ پیغام کو دیکها ہے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں زندگی کے آخری دن گزار رہا ہوں اور افسوس کے ساته اسلام اور مسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں کر سکا۔ وہ حکومتیں جو اتنی زیادہ آبادی، وسیع و عریض زمینوں، قیمتی ذخائر، اپنا سابقہ تمدن اور ثقافت رکهنے کے باوجود، استعمار کے شکنجے میں پهنس کر فقیر و ذلیل اور لاچار ہو کر موت کی انتظار میں بیٹه گئی جو حکومتیں استعمار ہی کے ہاتهوں معرض وجود میں آئی ہوں ان کا کیا حشر ہو گا۔
اسلامی حکمرانوں کے درمیان موجودہ اختلافات کہ جو ملوک الطوائف کی میراث اور عصر حیوانیت کا نتیجہ ہے غیروں کے ہاتهوں ان قوموں کو پسماندہ کرنے کے لیے ایجاد کیے گئے ہیں۔ اپنے مصالح اور مفاد کے بارے میں فکر کرنے کی صلاحیت کو ان سے چهین لیا گیا ہے یاس اور ناامیدی کی روح کہ جو استعمار نے ان قوموں حتی ان کے رہبروں میں پهونک دی ہے اس نے ان کی فکروں کو فلج کر دیا ہے۔ امید ہے کہ جوان طبقہ کہ جو ابهی بڑهاپے کی سستی اور کسالت سے دچار نہیں ہوا ہے ہر ممکنہ طریقہ سے ان قوموں کو بیدار کرے گا شعر، نثر، تقریر، کتاب جس طریقہ سے بهی سماج کو آگاہ کر سکتے ہیں حتی اپنے خصوصی اجتماعات میں اس فریضہ سے غافل نہ ہوں ۔ خدا کرے کہ کچه بلند ہمت اور غیرتمند لوگ پیدا ہوں اور اس شرم ناک حالت سے نجات دلائیں۔ پڑهے لکهے جوانوں کو چاہیے کہ دوسروں کے شورو شرابے میں نہ آئیں اور عیش و عشرت کی بساط پهیلا کر مزے نہ کریں جو استعمار نے ان کے لیے فراہم کی ہے۔ بیدار افراد کو چاہیے کہ اپنے ہم فکر افراد کو سماج میں پیدا کریں اور اپنی صفوف کو مضبوط کریں اور سختیوں میں قوی اور ثابت قدم رہیں اور حق اور صبر کی وصیت کرنے سے غفلت نہ کریں جو الہی دستور ہے۔ میں خدا وند عالم سے اسلام اور مسلمین کی عظمت کا خواستگار ہوں ۔ میرا سلام جناب آزرم اور جو بهی ہمارا ہم فکر ہے اس کی خدمت میں پہنچا دیجئے۔
والسلام علیکم
روح اللہ الموسوی الخمینی
صحیفہ نور، ج1