حج مسلمانوں کی طاقت وشوکت کا مظہر: امام خمینی(رہ)

حج مسلمانوں کی طاقت وشوکت کا مظہر: امام خمینی(رہ)

حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ(ص): وہ رشتہ توحید سے منسلک ہو کر اپنے اندر اتحاد اور وحدت قائم کریں کیونکہ اتحاد اور وحدت کیلئے رشتہ توحید سے زیادہ مضبوط اور پائیدار بنیاد کوئی نہیں ہے۔

اسلام کے سیاسی عبادی احکام میں سے حج کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ حج اسلام کا ایک طاقتور رکن ہے جو پوری دنیا پر کلمہ توحید کی بالادستی، سامراجی طاقتوں کی بربادی اور اسلام کی سرفرازی کے مقاصد کی تکمیل کیلئے سب سے بڑا مرکز قرار پاسکتا ہے۔

سنت نبوی(ص) کے مطابق حج کی ادائیگی مسلمان وہ عظیم طاقت وقوت حاصل کرسکتے ہیں جس کی وساطت سے وہ مستضعفین کو مستکبرین کے چنگل سے آزاد کرسکتے ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اللہ کی حاکمیت قائم کرسکتے ہیں۔

حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے اس جہاں میں لا الہ الا اللہ کا نور پهیلایا اور لوگوں سے فرمایا:

وہ رشتہ توحید سے منسلک ہو کر اپنے اندر اتحاد اور وحدت قائم کریں کیونکہ اتحاد اور وحدت کیلئے رشتہ توحید سے زیادہ مضبوط اور پائیدار بنیاد کوئی نہیں ہے۔

حضرت امام خمینی(رہ) حج کی حقیقت کا ادراک کے بارے میں فرماتے ہیں:
اسلامی معاشروں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ ابهی تک بہت سارے احکام کاحقیقی فلسفہ نہیں سمجه سکے ہیں اور حج اپنے اتنے سارے راز و عظمت کے باوجود ابهی تک ایک خشک عبادت اور لاحاصل حرکت اور بے فائدہ پهل کی شکل میں باقی ہے۔
مسلمانوں کے عظیم وظائف میں سے ایک وظیفہ اسی حقیقت تک پہنچنا ہے۔ کہ حج کیا ہے اور کیوں ہمیشہ اپنے مادی اور معنوی وسایل و ذرائع کو اس کو قائم کرنے کے لئے خرچ کرنا چاہئے۔(١)

حج کے مناسک توحیدی زندگی کے اعمال
حج گهر کے مالک سے نزدیک ہونے اور اس سے اتصال کے لئے ہے۔ صرف کچه چلنے دوڑنے اور چند جملے ادا کرنے اور کچه مناسک ہی بجالانے کا نام حج نہیں ہے۔ صرف خالی کلام ، لفظ اور حرکت کے ذریعہ آدمی خدا تک نہیں پہونچتا۔ حج الہٰی معارف کا مرکز ہے اسی حج سے زندگی کے تمام زادیوں کے بارے میں اسلام کی سیاست تلاش کی جائے۔ حج معنوی اور مادی رزائل (برائیوں) سے پاک ایک معاشرے کے وجود و ساخت کا پیغام دیتا ہے۔ حج دنیا میں ایک آدمی کی زندگی اور ایک تکامل پانے والے معاشرے کے عشق آفرین مناظر کی تکرار ہے اور یہ کہ ملت اسلامیہ کو چاہے وہ جس قوم و قبیلہ سے تعلق رکهتی ہے ملت ابراہیمی ہونا چاہئے۔ تا کہ محمد مصطفیؐ کی عظیم امت سے جڑجائے اور ایک ہو جائے یعنی ید واحدہ بنے۔ حج اسی توحیدی زندگی کی تنظیم و تمرین اور تصویر و تشکیل ہے۔ حج مسلمانوں کی ظاہری و معنوی توانائیوںاور صلاحیتوں کے ظاہر کرنے کا میدان ہے۔ حج قرآن کی طرح ہے کہ جس سے سب فائدہ اٹهاتے ہیں۔ لیکن اگر ملت اسلامیہ کے دانشور اور درد و تکلیف کو سمجهنے والے ماہرین اور افراد حج کے بحر معارف میں غواصی کریں اور اس کے قریب ہونے اور اس کی اجتماعی سیاستوں اور احکام میں غوطہ ور ہونے سے نہ ڈریں تو اس سمندر کے صدف سے ہدایت و ترقی اور حکمت و آزادی کے موتی کا زیادہ سے زیادہ ان کے ہاته لگیںگے اور حکمت و معرفت کے صاف وگوارا پانی سے ہمیشہ کے لئے سیراب ہو جائیں گے۔
لیکن کیا کیا جائے اس درد وغم کو کہاں لے جائیں کہ حج بهی قرآن کی طرح مہجور و متروک ہوا ہے۔ جس قدر وہ زندگی کے کمال و جمال کی کتاب ہمارے اپنے خود ساختہ حجابوں میں چهپ کے رہ گئی ہے اور آفرینش کے اسرار کا یہ خزانہ ہماری کج فکریوں کی مٹی کے ڈهیروں تلے مدفون و پنہان ہوگیا ہے اور اس کتاب کی زبان الفت و ہدایت اور زندگی اور اس کا زندگی ساز فلسفہ وحشت و موت اور قبر کی زبان تک تنزل کر چکاہے۔ حج بهی اسی حالت سے دوچار ہے۔(٢)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١ ۔ صحیفہ امام،ج٢١،ص٢٦۔

٢۔ صحیفہ امام،ج٢١،ص٧٧۔

ای میل کریں