حضرت آیت اللہ شہید محلاتی نقل کرتے تهے: مجهے یاد ہے کہ امام اس بات پر ہمیشہ غصہ کا اظہار فرماتے تهے کہ علما اتنے طاقتور ہونے کے باوجود اپنے طاقت سے غافل کیوں ہے؟!
نیــز امام خمینی(رہ) قدامت پسند حضرات سے بهی بہت رنجیدہ خاطر تهے اس لئے کہ ہر وقت ایک انداز سے ملال آور اور نفرت انگیز مسائل کهڑا کرتے تهے۔ مرحوم حاج احمد آقا نقل کرتے تهے کہ سب سے بڑی تنقید جو بعض مقدس مآب علما نے امام پر کیا یہ تهی کہ امام کی سیاست میں مداخلت اور ان کے قیام کی وجہ سے پڑهائی اور علمی میدان میں خلل پڑگیا!!
بعض نے 15 خرداد کے واقعہ کے بعد امام پر بے شرمانہ تنقید وحملہ آور ہوئے اس بہانہ سے کہ خمینی کے قیام کی وجہ سے مجتهدین کا تقدس پامال ہوچکا ہے! اور وہ گرفتاری مبتلا ہوئے ہیں!
امام خمینی(رہ) کے زمانے میں بهی ایسے لوگ تهیں جو کہ جاہلی یا لاشعوری کی وجہ سے بعض پرگراموں پر رکاوٹیں ڈالتے تهے یا سطحی علم کے باوجود تقدس اور تقویٰ کے لبادہ میں اپنے مقاصد کو پورا کرواتے تهے!
امام(رہ) کی شخصیت اور روحانی انداز ایسی تهی کہ قیام کے دوران تمام مصائب وغیر قابل برداشت قیل وقالوں کو سعہ صدر سے تحمل کرتے تهے۔
مرحوم آیت اللہ توسلی فرماتے تهے: میرا حوزہ علمیہ قم میں آمد کے اوائل میں ایک دن، میں اور مرحوم حاج آقا مصطفیٰ خمینی (آقا مصطفیٰ کا دینی طالبعلم بننے سے پهلے) مدرسہ فیضیہ سے دار الشفا کیلئے روانہ ہوئے، درس ومباحثہ کے دوران آقا مصطفیٰ کو پیاس لگی تو مٹکے سے پانی پینے لگے۔ ایک شخص نے (جو بعد میں امام کے مریدوں میں شمولیت حاصل کیا) آقا مصطفیٰ سے پوچها: کیا آپ روح اللہ کے صاحب زادے ہو؟ جواب سنا: جی ہاں! اس شخص نے فورا کہا: پهر تو اس مٹکے کو پاک کرنا ہوگا!! کیونکہ آپ کے والد فلسفی پڑهاتے ہیں!!
عجیب بات یہ ہے کہ بعض مخالفتوں کی وجہ سے تفسیر قرآن کریم کی کلاس بهی چهٹی کروادی! یہاں تک کہ بعض علما نما حضرات نے کهلم کهلا امام خمینی کے خلاف محاذ کهول کر مقابلہ کیلئے اٹهے اور ادهر ادهر سے فون کے ذریعے بهی امام کے خلاف باتیں بنانے لگے!!
امام کے نازنین دل درد وغصہ کا خزانہ بن چکا تها، جب بهی دل کے تکلیف کا احساس ہوتا تها تو ہم پریشان ان کے خدمت پہنچتے تهے اور جویای احوال تهے تا کہ بروقت علاج کرواسکے۔ یقیناً یہ درد ایسی عام بیماری کی وجہ سے نہیں تهی بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بارے اور مسلمانوں کے موجودہ فقر وفلاکت، درد ودکه جیسے مسائل امام کے درد دل کا وجہ ہوتا تها۔